حروفِ ابجد کے اعداد سے تعویذ لکھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ مثلاً کسی کو ”سورۂ یس“ کا تعویذ لکھنا ہے، اب اگر وہ ”سورۂ یس“ کے بدلے اس کے اَعدادِ اَبجدی لکھ دے تو کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ حروفِ ابجد کی ایجاد حروفِ تہجی کو یادکرنے کی غرض سے قدیم زمانے میں کی گئی، البتہ بعد میں اس غرض کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال مختلف رہا ہے، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کو مختلف مقاصد کے لیے لکھتے اور استعمال کرتے ہیں، شرعًا جائز کاموں کے لیے اس کا استعمال جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے۔
اب اگر کوئی شخص کسی جائز مقصد کے لیے تعویذ لکھے اور تجربے کی بنیاد پر اس میں حروفِ ابجد کا استعمال کرے تو یہ جائز ہے، لیکن سمجھنا چاہیے کہ یہ حروف محض علامت ہوں گے، اگر ”سورۂ یٰس “ کی جگہ اس کے حروفِ ابجد لکھے جائیں تو اس سے سورۂ یٰس کا ثواب نہیں ملے گا۔
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک کلک کریں:
بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بجائے 786 کا عدد لکھنے کا حکم
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201863
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن