بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ کو چبا نے کاحکم


سوال

 اگر کوئی شخص تعویز میں اللہ اور رسول کا نام لکھا ہوا ہو  جس کو چبا کرکھا لیاجائے تو اس کے بارے میں شرعی کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جس طرح بیماری کی صورت میں دوائی کا استعمال جائز ہے ،اسی طرح تعویذ اور دم بھی جائز ہے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ تعویذات کے الفاظ قرآن کریم یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں، نیز وہ عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو ں جس کے معنی معلوم ہوں اور دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں خود کوئی تاثیر نہیں، بلکہ مؤثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں، جس طرح بطورِ  دم اور علاج استعمال ہونے والے کلمات زبان سے پڑھ کر علاج کیا جاسکتا ہے اسی طرح  اگر مستند ماہر معالج ہدایت دیں تو یہ کلمات کسی کا غذ وغیرہ پر لکھ کرہو چبا کرکھا ئے  جاسکتے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها."

(الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی،٢٨٨٠/٧، ط: دارالفکر )

وفیہ أیضاً:

"(أو تعلقت تميمة) : أي: أخذتها علاقة، والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، فإن القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى وكلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة، عرف ذلك من أصل السنة، وقيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، ويؤيده صنيع ابن مسعود -رضي الله عنه - على ما تقدم، والله أعلم".

( الفصل الثانی، کتاب الطب والرقی، ٢٨٨١/٧،ط: دارالفکر )

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ".

 ( کتاب الحظر والاباحۃ، ٣٦٣/٦،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101731

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں