بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ کو بلا وضو چھونا اور پہن کر بیت الخلا جانے کا حکم


سوال

 جو لوگ قرآنی آیات کی مہر بناتے ہیں ،پھر اس کےذریعہ لوگوں کو تعویذ دیتے ہیں اور لوگ احتیاط نہیں کرتے ہیں، مثلا بے وضو اس کو چھوتے ہیں اور گلے میں ڈالے رکھتے ہیں، ایسے ہی باتھ روم جاتےہیں اور اس کے ذریعہ قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے،کیا یہ سب جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  علاج ومعالجہ کی غرض سےمندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ تعویذ دینا ،لینا اور اس کو پہننا شرعا جائز ہے:

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔ (۴) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑے، مثلاً: اجنبیہ عورتوں سے اختلاط و بے پردگی وغیرہ۔

         لہذا  ایسے تعویذ  جو آیاتِ قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا، یا ان کی مہر بناکر تعویذ کے لیے استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے۔

نیز آیت قرآنی پر مشتمل تعویذ   اگر  کسی کپڑے یا چمڑے میں بند ہے تو اس کو  کپڑے اور چمڑے کے اوپر سے بےوضو چھونا یا ایسے بند تعویذ کو پہن کر بیت الخلا میں جانا جائز ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

و في الرد : (قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك؛ إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان: أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم، وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه»، قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج۶،ص۲۶۳،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"رقية في ‌غلاف متجاف لم يكره دخول الخلاء به، والاحتراز أفضل.

(قوله: رقية إلخ) الظاهر أن المراد بها ما يسمونه الآن بالهيكل والحمائلي المشتمل على الآيات القرآنية، فإذا كان غلافه منفصلا عنه كالمشمع ونحوه جاز دخول الخلاء به ومسه وحمله للجنب. ويستفاد منه أن ما كتب من الآيات بنية الدعاء والثناء لا يخرج عن كونه قرآنا، بخلاف قراءته بهذه النية فالنية تعمل في تغيير المنطوق لا المكتوب اهـ من شرح سيدي عبد الغني."

(کتاب الطہارۃ،ج۱،ص۱۷۸،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار.

قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر."

(کتاب الطہارۃ،ج۱،ص۱۷۳،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100784

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں