بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ کا حکم


سوال

 بعض لوگ ابجد کے مطابق علم جفر کی بنیاد پر  لوگوں کو تعویذ دیتے ہیں،صرف  ابجد کی تعویذ دینا اسلام میں جائز نہیں ہے یا تعویذ دینا اسلام میں جائز نہیں ہے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےلوگوں کو  تعویذ دیا ہے؟ براہِ کرم مجھے دلائل کے ساتھ مسئلہ بتائیں۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح بیماری کی صورت میں دوائی کا استعمال جائز ہے ،اسی طرح تعویذ اور دم بھی جائز ہے، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ تعویذات کے الفاظ قرآن کریم یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں، نیز وہ عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جس کے معنی معلوم ہو اور دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں خود کوئی تاثیر نہیں، بلکہ مؤثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں، جس طرح بطورِ  دم اور علاج استعمال ہونے والے کلمات زبان سے پڑھ کر علاج کیا جاسکتا ہے اسی طرح یہ کلمات کسی کا غذ وغیرہ پر لکھ کر گلے اور بازو  وغیرہ پر بھی  لٹکائے جاسکتے ہیں، کئی صحابہ کرام اور تابعین کرام سے ایسا کرنا ثابت ہے اور جمہور علماء کرام کے نزدیک جائز ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کچھ کلمات لکھ کر دئیے تھے جب انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی اور فرمایا: "میں بستر پر سوتا ہوں تو میں اپنے گھر میں چکی چلنے کی آوا زجیسی آواز سنتاہوں اورشہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ جیسی بھنبھناہٹ سنتا ہوں اور بجلی کی چمک جیسی چمک دیکھتاہوں، پھر جب میں گھبرا کر اور مرعوب ہوکر سراٹھاتاہوں تو مجھے ایک (کالا) سایہ نظر آتاہے جو بلند ہوکر میرے گھر کے صحن میں پھیل جاتاہے، پھر میں اس کی طرف مائل ہوتاہوں اوراس کی جلد چھوتا ہوں تو اس کی جلد سیہہ( ایک جانور ہے جس کے بدن پر کانٹے ہوتے ہیں )کی جلد کی طرح معلوم ہوتی ہے، وہ میری طرف آگ کے شعلے پھینکتا ہے میرا گمان ہوتا ہے کہ وہ مجھے بھی جلادے گا اورمیرے گھر کو بھی “۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے گھر میں رہنے والا جن بہت برا ہے، وگرنہ رب کعبہ کی قسم! کیا تیرے جیسے شخص کو بھی تکلیف دی جاتی ہے!‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم اور دوات منگوا کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو کچھ کلمات لکھوائے، اس کے بعد ابودجانہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں اسے لپیٹ کر اپنے گھر لایا اور سر کے نیچے رکھ کر رات کو سو گیا اور میں ایک چیخنے والے کی چیخ سے بیدار ہوا، کوئی کہہ رہا تھا: ’’اے ابودجانہ! لات و عزیٰ کی قسم! ان کلمات نے ہمیں جلا ڈالا، تمہیں تمہارے نبی کی قسم! نامہ مبارک یہاں سے اٹھالو، ہم تیرے گھر میں آئندہ نہیں آئیں گے۔‘‘

سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گھبراہٹ کے لیے یہ کلمات سکھاتے تھے: أعوذ بکلمات اللہ التامۃ الخ۔۔ یعنی میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس کے غصے سے اور اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کے وسوسوں سے اور ان کے میرے پاس آنے سے ۔ عبد اللہ بن عمرو اپنے صاحبزادوں میں سے جو عقل و شعور کی حد تک پہنچتا اس کو وہ یہ دعا سکھادیا کرتے تھے اور جو ہوشیار نہ ہوتا اس کے گلے میں یہ دعا تحریر فرماکر لٹکادیا کرتے تھے۔

 احادیثِ مبارکہ میں جن دموں اور تعویذات سے منع کیا گیا ہے ، وہ مشرکین کےدم تھے، جن میں شیطان سے مدد لیا کرتے تھے ، اور یہی حال حرام " تمائم "(وہ ڈوری ،جسے مشرکین مؤثر بالذات سمجھ کر بچوں کے گلے میں نظربد سے بچانے کےلیے ڈالتےتھے) کا ہے اور ان حرام تمائم کا آیاتِ قرآنیہ اور اسماء باری تعالی پر مشتمل تعویذات سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

 حروفِ ابجد   کی ایجاد   حروفِ تہجی کو یادکرنے کی غرض سے قدیم زمانے میں  کی گئی،  البتہ  بعد میں اس غرض کے ساتھ ساتھ اس کا استعمال  مختلف  رہا ہے، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کو مختلف مقاصد کے لیے لکھتے اور استعمال کرتے ہیں، جائز کاموں کے لیے اس کا استعمال جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے، اب اگر کوئی شخص  کوئی جائز  تعویذ  (شرکیہ کلمات سے پاک) لکھے اور  اس میں حروفِ ابجد کا استعمال کرے تو  یہ  جائز ہے۔

جہاں تک "علمِ جفر" (جسے بعض لوگ علمِ جعفر بھی کہتے ہیں) کا تعلق ہے، تو اس بارے میں ہماری جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں سے ایک سوال و جواب ملاحظہ ہو:

"سوال:

کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ جو حساب ہے "علمِ جعفر" یا "جفر" یا "علمِ ظفر"، مسلمانوں کے اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے کہ نہیں؟

جواب:

و في الدر المختار:

"و حرامًا و هو علم الشعبذة و التنجیم و الرمل."

و في رد المحتار:

"و لو لم یعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى الغیب بنفسه یكفر ... و نقل عن فتاوى ابن حجر: أنّ تعلّمه و تعلیمه حرام شدید التحریم؛ لما فیه من إیهام العوامّ أنّ فاعله یشارك الله تعالى في غیبه."

(الدر المختار مع رد المحتار، مقدمۃ، مطلب فی التنجیم و الرمل، (1/43، 44) ط: سعید کراچی)

ان تصریحات سے  واضح ہوا کہ علمِ جعفر وغیرہ چوں کہ موہمِ شرک ہیں؛ اس لیے ناجائز و حرام ہیں، اور اس علم کی نسبت حضرت جعفر صادق کی طرف صحیح نہیں ہے، اور مسلمانوں کو اس قسم کی خرافات سے بچنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

الجواب صحیحکتبہ
ولی حسن ٹونکیمحمد داوٗد (7/6/1397)

سنن أبوداؤد کی روایت میں ہے :

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعلمهم من الفزع كلمات: «أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون» وكان عبد الله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه."

(أول کتاب الطب، باب کیف الرقی؟، 6/ 40، رقم الحدیث: 3893، ط: دار الرسالة العالمية)

بذل المجہود شرح أبی داؤد میں اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:

"فیہ دلیل علی جواز کتابة التعاویذ والرقی وتعلیقھا."

(أول کتاب الطب، باب کیف الرقی؟، ج: 11، ص: 622، ط: داربالبشائر)

صحیح مسلم میں روایت ہے:

" وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا روح بن عبادة، حدثنا ابن جريج، أخبرني أبو الزبير، أنه سمع جابر بن عبد الله، يقول: أرخص النبي صلى الله عليه وسلم في رقية الحية لبني عمرو قال أبو الزبير: وسمعت جابر بن عبد الله يقول: لدغت رجلا منا عقرب، ونحن جلوس مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: يا رسول الله أرقي؟ قال: «من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل»."

(کتاب السلام، باب استحباب الرقية من العين والنملة والحمة والنظرة، 4/ 1726، رقم الحدیث: 2199، ط: دار إحياء التراث العربي)

مسلم شریف کی ایک اور روایت میں ہے:

"حدثني أبو الطاهر، أخبرنا ابن وهب، أخبرني معاوية بن صالح، عن عبد الرحمن بن جبير، عن أبيه، عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك."

(کتاب السلام، باب لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك، 4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، ط: دار إحياء التراث العربي)

دلائل النبوة للبيهقی ميں ہے:

"حدثنا أبي خالد بن أبي دجانة، قال: سمعت أبي أبا دجانة يقول: شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله بينما أنا مضطجع في فراشي، إذ سمعت في داري صريرا كصرير الرحى، ودويا كدوي النحل، ولمعا كلمع البرق، فرفعت رأسي فزعا مرعوبا، فإذا أنا بظل أسود مولى يعلو، ويطول في صحن داري فأهويت إليه فمسست جلده، فإذا جلده كجلد القنفذ، فرمى في وجهي مثل شرر النار، فظننت أنه قد أحرقني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عامرك عامر سوء يا أبا دجانة ورب الكعبة! ومثلك يؤذى يا أبا دجانة! ثم قال: ائتوني بدواة وقرطاس، فأتي بهما فناوله علي بن أبي طالب وقال: اكتب يا أبا الحسن. فقال: وما أكتب؟ قال: اكتب: بسم الله الرحمن الرحيم. هذا كتاب من محمد رسول رب العالمين صلى الله عليه وسلم، إلى من طرق الدار من العمار، والزوار، والصالحين، إلا طارقا يطرق بخير يا رحمن. أما بعد: فإن لنا، ولكم في الحق سعة، فإن تك عاشقا مولعا، أو فاجرا مقتحما أو راغبا حقا أو مبطلا، هذا كتاب الله تبارك وتعالى ينطق علينا وعليكم بالحق، إنا كنا نستنسخ ما كنتم تعملون، ورسلنا يكتبون ما تمكرون، اتركوا صاحب كتابي هذا، وانطلقوا إلى عبدة الأصنام، وإلى من يزعم أن مع الله إلها آخر. لا إله إلا هو كل شيء هالك إلا وجهه له الحكم وإليه ترجعون. يغلبون «حم» لا ينصرون، حم عسق، تفرق أعداء الله، وبلغت حجة الله، ولا حول ولا قوة إلا بالله فسيكفيكهم الله وهو السميع العليم.

قال أبو دجانة: فأخذت الكتاب فأدرجته وحملته إلى داري، وجعلته تحت رأسي وبت ليلتي فما انتبهت إلا من صراخ صارخ يقول: يا أبا دجانة! أحرقتنا اللات والعزى، الكلمات بحق صاحبك لما رفعت عنا هذا الكتاب، فلا عود لنا في دارك، وقال غيره في أذاك، ولا في جوارك، ولا في موضع يكون فيه هذا الكتاب.

قال أبو دجانة فقلت لا، وحق صاحبي رسول الله صلى الله عليه وسلم لأرفعنه حتى أستأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أبو دجانة: فلقد طالت علي ليلتي بما سمعت من أنين الجن وصراخهم وبكائهم، حتى أصبحت فغدوت، فصليت الصبح مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأخبرته بما سمعت من الجن ليلتي، وما قلت لهم. فقال لي: يا أبا دجانة ارفع عن القوم، فو الذي بعثني بالحق نبيا إنهم ليجدون ألم العذاب إلى يوم القيامة."

(باب ما يذكر من حرز أبي دجانة، 7/ 120، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار".

(کتاب الحظر والإباحة، 6/ 363، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں