بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ کا حکم


سوال

تعویذ کا کیا حکم ہے ؟کیا کوئی مسلمان تعویذ پہن سکتا ہے ؟

جواب

  اللہ کی ذات کو موثر حقیقی سمجھ کر   ،جائز مقصد کے لیے بطور علاج  تعویذ پہننا     جائز  ہےبشرط یہ کہ  وہ   خلاف شرع کلمات پر  مشتمل نہ ہو  ۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ولا بأس ‌بتعليق ‌التعويذ ولكن ينزعه عند الخلاء والقربان كذا في الغرائب."

(کتاب الکراہیہ ،ج:5،ص:356،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال رقاه الراقي رقيا ورقية إذا عوذه ونفث في عوذته قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به اهـ"

(کتاب الحضر و الاباحۃ ،ج:6 ،ص:363، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وعن «عروة بن مالك - رضي الله عنه - أنه قال: كنا في الجاهلية نرقي فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال اعرضوا علي رقاكم لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك» رواه مسلم وأبو داود اهـ"

(کتاب الحضر و الاباحۃ ج:6 ،ص:429 ،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں