میں نےعمرہ کیا، عمرے میں طواف کے دوران آٹھ چکر لگائے، تو کیا عمرہ ہوگیا؟
واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے عمرہ کے دوران طواف کا آٹھواں چکر بھی مکمل کر لیا تو اس کا عمرہ درست ہے، لیکن آٹھویں چکر لگانے کی تین صورتیں بنتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
اگریہ آٹھواں چکرقصداً ( جان بوجھ کر) کر لیا، تو یہ ایک نیا طواف شروع ہو گیا، لہٰذا اب اس شخص پر چھ چکر مزید ملا کر طواف مکمل کرنا واجب ہے۔
اور اگر ساتویں چکر کے بعد غلطی( وہم یا وسوسہ ) سے آٹھواں چکر لگالیا ، تب بھی اسے دوسرا طواف پورا کرنا ضروری ہے۔
اور اگر کسی نے آٹھواں چکر اس سوچ کے تحت لگایا کہ یہ ساتواں ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ آٹھواں چکر تھا، تو دوسرا طواف پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں سائل نے آٹھ چکر لگانے کے بعداگر عمرہ کے بقیہ تمام ارکان ادا کرلیے تھے تو اس کا عمرہ ادا ہوگیا ، البتہ بغیر عذر کے طواف ناقص چھوڑ کر نکل جانا مکروہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فلو طاف ثامنا من عمله به) فالصحيح أنه (يلزمه إتمام الأسبوع للشروع) أي لأنه شرع فيه ملتزما بخلاف ما لو ظن أنه سابع لشروعه مسقطا لا مستلزما بخلاف الحج..(قوله مع علمه به) أي بأنه ثامن لكن فعله بناء على الوهم أو الوسوسة لا على قصد دخول طواف آخر، فإنه حينئذ يلزم اتفاقا شرح اللباب. قلت: لكن التعليل يفيد أن الخلاف فيما لو قصد الدخول في طواف آخر أيضا (قوله لشروعه مسقطا لا ملزما) أي لأنه شرع فيه لإسقاط الواجب عليه وهو إتمام السبعة لا ملزما نفسه بشوط مستأنف حتى يجب عليه إكماله لما تبين له أنه ثامن (قوله بخلاف الحج) فإنه إذا شرع فيه مسقطا يلزمه إتمامه بخلاف بقية العبادات بحر...والحاصل: أن الطواف كغيره من العبادات مثل الصلاة والصوم لو شرع فيه على وجه الإسقاط بأن ظن أنه عليه ثم تبين خلافه لا يلزمه إتمامه إلا الحج، فإنه يلزمه إتمامه مطلقا كما مر أول الفصل....
[تنبيه]
إذا خرج لغير حاجة كره ولايبطل فقد قال في اللباب: ولا مفسد للطواف وعد من مكروهاته تفريقه أي الفصل بين أشواطه تفريقاً كثيراً، وكذا قال في السعي، بل ذكر في منسكه الكبير لو فرق السعي تفريقاً كثيراً كأن سعى كل يوم شوطاً أو أقل لم يبطل سعيه ويستحب أن يستأنف"
(كتاب الحج، فصل في الإحرام وصفة المفرد، ج:2، ص:496،497، ط:سعيد)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"لو طاف فرضا أو غيره ثمانية أشواط إن كان على ظن أن الثامن سابع فلا شيء عليه كالمظنون ابتداء، وإن علم أنه الثامن اختلف فيه، والصحيح أنه يلزمه سبعة أشواط للشروع ولو طاف أسابيع فعليه لكل أسبوع ركعتان على حدة ولو شك في عدد الأشواط في طواف الركن أو العمرة أعاده."
(كتاب الحج، باب الإحرام، ج:3، ص:356، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144606101666
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن