بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طواف كی دو ركعات میں تاخیر کرنا


سوال

طواف کی دو رکعات واجبہ مکروہ وقت ہونے کی وجہ سے، سعی کے بعد پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ طواف کے بعد دو رکعات پڑھنا واجب ہے، اور کسی مکان یا وقت کے ساتھ خاص نہیں، البتہ مسنون یہ ہے کہ اسے طواف کے فوراً بعد پڑھا جائے ، اور اوقات مکروہہ کے علاوہ میں اس كو  مؤخر  کرنا مکروہ ہے۔

صورتِ مسئولہ میں طواف کی دو رکعاتِ واجبہ کو اوقا ت مکروہہ ہونے کی وجہ سے سعی کے بعد پڑھنا بغیر کسی کراہت کے جائزہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه طاف بعد طلوع الفجر سبعة أشواط ولم يصل حتى خرج إلى ذي طوى وصلى ثمة بعد ما طلعت الشمس وقال ركعتان مكان ركعتين ولو كان أداء ركعتي الطواف بعد طلوع الفجر الشمس جائزا من غير كراهة لما أخر لأن أداء الصلاة بمكة أفضل خصوصا ركعتا الطواف."

(بدائع الصنائع: كتاب الصلاة، ج:2 ص:294، ط: دار الكتل العلمية)

منحۃ الخالق  علی البحر الرائق میں ہے:

"(قوله فواجبة على الصحيح) أي بعد كل طواف فرضا كان أو واجبا أو سنة أو نفلا ولا يختص جوازها بزمان ولا بمكان ولا تفوت ولو تركها لم تجبر بدم ولو صلاها خارج الحرم ولو بعد الرجوع إلى وطنه جاز، ويكره والسنة الموالاة بينها وبين الطواف."

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق: كتاب الحج، باب الإحرام، ج:2 ص:580، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں