بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعویذ پہننے کا حکم


سوال

تعویذ پہننا اسلام میں ہے یہ نہیں؟

جواب

تعویذ پہننا یا باندھنا شرعاً جائز ہے،  البتہ اس  کے شرعاً جائز ہونے کی  شرائط  درج ذیل ہیں:

1۔ کسی جائز مقصد کے لیے ہو، ناجائز مقصد کے لیے ہرگز نہ ہو۔

2۔ اس کو مؤثر بالذات نہیں سمجھا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی مؤثر حقیقی سمجھا جائے۔

3۔  وہ تعویذ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ کلمات پر ، یا اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر مشتمل ہو، یا عربی یا کسی اور زبان کے ایسے الفاظ پر مشتمل ہو جن میں کفر و شرک یا گناہ کی بات نہ ہو، اور ان کا مفہوم بھی معلوم ہو۔

اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں تو پھر تعویذ کرنا اور پہننا شرعاً ناجائز ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:

تعویذ کی حقیقت اور اُس کا شرعی حکم

فتح الباری  میں ہے:

’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی.‘‘

( ج: 10، ص: 195، ط: دار الفکر ) 

فتاوى شامى ميں هے:

’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ.‘‘

( ج: 6، ص: 363، ط:سعيد) 

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے : 

’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ..... أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار.... و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ.‘‘

( الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: 5، ص؛356، ط: رشيديه) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507101638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں