بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ میں اللہ تعالیٰ سے کیا گیا وعدہ اگر ٹوٹ جائے تو کفارہ لازم نہیں ہوتا


سوال

اگر ایک شخص سے بار بار گناہ سر زد ہو تا ہو،  اور وہ اللّٰہ کے حضور توبہ بھی کرے، لیکن  پھر بھی گناہ ہو جائے، تو ایسی صورت میں اگر اس نے اللّٰہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ "آئندہ میں یہ گناہ نہیں کروں گا"،  لیکن پھر دوبارہ وہ گناہ سر زد ہو جائے، تو کیا اس شخص پر کوئی کفارہ ہوگا یا نہیں؟ براہ کرم وضاحت فرما دیں ۔

جواب

توبہ کرتے وقت جب انسان اس قسم کے جملے استعمال کرتا ہے تو اس سے مراد عزم کا اظہار ہوتا ہے،  اس سے اصطلاحی قسم یا نذر مراد نہیں ہوتی؛  لہٰذا اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے یہ وعدہ کرے کہ "آئندہ میں یہ گناہ  نہیں کروں گا"،  اور اس سے دوبارہ اس گناہ کا ارتکاب ہو جائے، تو اس کے اوپر کسی قسم کا کوئی کفارہ لازم نہیں ہو گا۔ البتہ اس شخص کو چاہیے کہ وہ مایوس نہ ہو، بلکہ پھر سے توبہ کی تجدید کرلے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا دوبارہ عزم کرلے، پھر اگر گناہ ہوجائے تو پھر توبہ کرلے، ان شاء اللہ ایک دن اس گناہ سے مکمل نجات مل جائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ٥/ ٨١، ط: دار الكتب العلمية)

العرف الشذی میں ہے:

"ومنها أنه عمل اللسان لا القلب فقط، وصيغته صيغة الشرط والجزاء."

(أبواب النذور والأيمان، ١/ ٢٧٩، ط: سعيد)

فتاویٰ بزازیہ میں ہے:

"إن عوفيت صمت كذا، لم يجب مالم يقل لله علي، وفي الاستحسان  يجب، وإن لم يكن تعليقا لايجب قياسا واستحسانا، كما إذا قال أنا أحج فلا شيء، ولو قال إن فعلت كذا فأنا أحج ففعل يجب عليه الحج."

(الفتاوى  البزازية على حامش الهندية، كتاب الأيمان، الفصل الثالث في النذر، ٤/ ٢٧٢، ط: مكتبة ماجدية)

الفقہ علی مذاہب الاربعہ میں ہے:

"ولا يشترط للنذر صيغة خاصة، ‌فيلزم ‌بكل ‌لفظ دال على الالتزام ولو لم يذكر فيه لفظ النذر."

(كتاب اليمين، مباحث النذر، أقسام النذر، ٢/ ١٣١، ط: دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قلت: وإنما ذكروا النذر في الأيمان لما يأتي من أنه لو قال علي نذر ولا نية له لزمه كفارة."

(كتاب الأيمان، مطلب في أحكام النذر،  ٣/ ٧٣٥، ط: سعيد)

قرآن مجید میں ہے:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ."

(سورة الزمر، الآية: ٥٣)

"ترجمہ: آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو، جنہوں نے  اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم خدا تعالیٰ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا، وہ واقعی بڑا بخشنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے۔"

(بیان القرآن، ٢/ ٢٨، ط: میر محمد کتب خانہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

"كلّ بني آدم خطاء، و خير الخطائين التوّابون."

(أخرجه ابن ماجه في سننه في باب ذكر التوبة، ٥/ ٣٢١، ط:  دار الرسالة العالمية)

ترجمہ: ’’ہر بنی آدم  (انسان)  بہت زیادہ  خطا کار  ہے، اور  (لیکن  اللہ  تعالیٰ  کے  نزدیک)  بہترین  خطاکار  وہ  ہیں جو کثرت  سے توبہ کرنے  والے  ہوں۔‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں