بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تسویہ صفوف کا حکم کب ہے؟


سوال

تسویۂ صفوف کا حکم کس وقت ہوگا؟

جواب

نماز باجماعت  کے وقت صفوں کی درستی سے متعلق احادیثِ مبارکہ میں   بہت تاکید منقول ہے، حتی  کہ  جناب ِ نبی کریمﷺ  از خود اس کا اہتمام فرماتے تھے،  البتہ اس میں وقت کی کوئی قید نہیں، اس لیے کہ روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم  اقامت  سے پہلے یا اقامت کے دوران صفیں درست کرلیا کرتے تھے،اور  اقامت کے ختم تک اگر صفیں درست نہ ہوتیں تو صفوں کی درستی  تک نماز کو مؤخر کرلیا کرتے تھے۔  

چنانچہ بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا أنس بن مالك، قال: أقيمت الصلاة فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال: «أقيموا صفوفكم، وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري»."

(1/200، باب إقبال الإمام على الناس، عند تسوية الصفوف،کتاب الاذان،الطاف اینڈسنز)

ترجمہ:حضرت انس بن مالک ؓ  روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز قائم کی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ انورہماری طرف کر کے فرمایا :اپنی صفوں کو درست کرلو اور مل کر کھڑے ہو،اس لیے  کہ  میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔

       ترمذی شریف میں ہے :

"عن النعمان بن بشير قال: كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسوي صفوفنا، فخرج يومًا فرأى رجلًا خارجًا صدره عن القوم، فقال: لتسونّ الصفوف أو ليخالفن الله بين وجوهكم. [ قال: ] وفي الباب عن جابر بن سمرة، و البراء، و جابر بن عبد الله، و أنس، و أبي هريرة، و عائشة. قال أبو عيسى: حديث النعمان [ بن بشير ] حديث حسن صحيح. وقد روى عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال: من تمام الصلاة إقامة الصف... الخ"

(1/155، باب ما جاء في إقامة الصفوف،کتاب الصلوۃ،رحمانیہ)

ترجمہ:  "حضرت  نعمان بن بشیررضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو درست فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ  آپ ﷺ  نکلے تو آپ ﷺنے ایک شخص کو دیکھا، اس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہوا تھا آپ ﷺنے فرمایا:  تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ پھوٹ ڈال دے گا تمہارے دلوں میں۔

اس باب میں حضرت جابر بن سمرہ ،براء ،جابر بن عبداللہ، انس ،ابوہریرہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی روایات مروی ہیں۔  امام ابوعیسٰی فرماتے ہیں کہ نعمان بن بشیر کی مروی حدیث حسن صحیح ہے۔

اور مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو سیدھا کرنا نماز کو پورا کرنے میں شامل ہے۔  اور مروی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ وہ ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر کرتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے جب تک انہیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں۔  نیز مروی ہے حضرت علی اور عثمان رضی اللہ عنہماسے کہ وہ دونوں بھی یہی کام کرتے اور فرمایا کرتے:  برابر ہو جاؤ۔  اور حضرت علی فرمایا کرتے: اے فلاں آگے ہو جاؤ ! اے فلاں پیچھے ہو جاؤ۔"

سنن نسائی میں ہے:

"أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَقُمْنَا، فَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ قَبْلَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ فَانْصَرَفَ فَقَالَ لَنَا: «مَكَانَكُمْ». فَلَمْ نَزَلْ قِيَامًا نَنْتَظِرُهُ حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا قَدِ اغْتَسَلَ يَنْطُفُ رَأْسُهُ مَاءً، فَكَبَّرَ وَصَلَّى."

(سنن النسائي 2 / 89 -باب إِقَامَةُ الصُّفُوفِ قَبْلَ خُرُوجِ الْإِمَامِ)

 أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ حِينَ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ قَبْلَ أَنْ يُكَبِّرَ فَقَالَ: «أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ وَتَرَاصُّوا؛ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»

سنن النسائي (2 / 92)

تبیین الحقائقمیں ہے :

              "وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف، ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: سووا صفوفكم؛ فإن تسوية الصف من تمام الصلاة". 

(1/136،مکتبہ امدادیہ ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں