بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر والی اشیاء کی تجارت کا حکم


سوال

میرے بیٹے لنڈے کا کام کرتے ہیں،جس میں وہ مارکیٹ سے صرف ذی روح کی تصویر بنے ہوئے جرسی یا ٹی شرٹ خرید کر باہر ملک بیچتے ہیں،مہنگے داموں پر(کیونکہ اصل مقصود ہی اس کی تصویر اور پرنٹ ہوتا ہے،باقی ٹی شرٹ کی کمپنی یا اس کے کپڑے کی بنیاد پر  کوئی خاص مارکیٹ ویلیو نہیں رکھتی)،یا خود نہیں ،بلکہ ان لوگوں کو فروخت کرتے ہیں جو باہر ممالک بیچتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ان کا یہ کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟

2:اگر وہ مارکیٹ سے نہیں بلکہ خود پورا کنٹینر مال خرید کر اس میں سے ذی روح کی تصاویر والی ٹی شرٹ علیحدہ مہنگے داموں فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں؟اگر وہ یہ مال کنٹینر اسی نیت سے خریدے کہ اس میں یہ تصویر والا مال بھی نکلے گا(فروخت کرنے والے سے خریداری کامعاہدہ اس بنیاد پر نہیں ہوتا) تو آیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جن اشیاء پر جاندار کی تصاویر ہوں، ان کی خرید و فروخت کرنے کا یہ حکم ہے کہ اگران اشیاء کی خرید و فروخت سے جاندار کی تصاویر  کی وجہ سے کی جاتی ہے، تو ایسی اشیاء کی خرید و فروخت ناجائز ہے اور ان سے حاصل ہونے والے منافع بھی ناجائز ہیں اور اگر ایسی اشیاء کی خرید و فروخت جاندار کی تصویر کی وجہ سے نہیں کی جاتی بلکہ نفس کپڑے کی وجہ سے کی جاتی ہے تو خرید و فروخت جائز ہےاور ان سے حاصل ہونے والے منافع بھی جائز ہیں، تاہم اس سے احتیاط کرنا بہترہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مارکیٹ سے  ذی روح کی تصاویر والی ٹی شرٹ وغیرہ خرید کر مہنگے داموں فروخت کرنا  جس میں تصاویر مقصود ہو شرعاجائز نہیں ہے،خواہ خود بیرون ملک فروخت کریں یا ایسے کسی شخص پرفروخت کریں جو بیرون ملک فروخت کرتا ہو،بہر دوصورت شرعا جائز نہیں ہے۔

2۔اسی طرح کنٹینر خرید کر اس میں سے تصاویر والی ٹی شرٹیں علیحدہ کرکے ان کو تصاویر کی بنیاد پر مہنگے داموں فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے،البتہ کنٹینر خریدتے وقت چونکہ تصاویر والی ٹی شرٹوں کی بنیاد پر خریداری کا معاہدہ نہیں ہوتا اس لیے مکمل کنٹینر خریدنا ناجائز نہیں البتہ مذکورہ نیت سے خرید ناقبیح ،مذموم اور خیر وبرکت سے محرومی کا باعث ہے۔

شرح السیر الکبیر میں ہے:

"ألا ترى أن المسلمين ‌يتبايعون ‌بدراهم ‌الأعاجم فيها التماثيل بالتيجان، ولا يمتنع أحد عن المعاملة بذلك. وإنما يكره هذا فيما يلبس أو يعبد من دون الله من الصليب ونحوها.

 وحكم هذه الأشياء كحكم ما لو أصابوا برابط وغيرها من المعازف. فهناك ينبغي له أن يكسرها ثم يبيعها أو يقسمها حطبا. قال: إلا أن يبيعها قبل أن يكسرها ممن هو ثقة من المسلمين يعلم أنه يرغب فيها للحطب لا للاستعمال على وجه لا يحل، فحينئذ لا بأس بذلك.

لأنه مال منتفع به. فيجوز بيعه للانتفاع به بطريق مباح شرعا."

(أبواب سهمان الخيل والرجالة في الغنائم،باب ما يحمل عليه الفيء وما يجوز فعله بالغنائم في دار الحرب، ص:1051،ط؛الشركة الشرقية)

کفایت المفتی میں ہے:

بچوں کی کھلونوں کی تجارت  کا حکم:

"تصویروں کا خریدنا بیچنا ناجائز ہے خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی اور بچوں کے کھیلنے کی ہوں اور کسی اور غرض کے لیے ،البتہ ایسی اشیاءجن میں تصویر کا خریدنا بیچنا مقصود نہ ہو ،جیسے دیا سلائی کے بکس کہ ان پر تصویر بنی ہوتی ہے،مگر تصویر کی بیع و شراءمقصود نہیں ہوتی تو ایسی چیزوں کا خریدنا بیچنا مباح ہو سکتا ہے.....۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج9،ص235،  ط:فاروقیہ،کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں