بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر سازی، پردے کے احکامات اور جلسے میں عورت کی تلاوت کا حکم


سوال

(1) میرا سوال یہ ہے کہ کیمرہ اور انٹرنیٹ کی ایجادات کے بعد خانہ کعبہ میں بھی کیمرہ و انٹرنیٹ کے ذریعے سے امام خانہ کعبہ کی تلاوت شدہ ویڈیوز اور نمازیں، مختلف ویب سائٹس و یوٹیوب پراپلوڈکی جاتی ہیں  اور ٹیلی ویژن پر نشر کی جاتی ہیں، اور یہ امام صاحبان دنیا کی تمام عورتوں کے لیے غیر محرم ہوتے ہیں ،ان کے چہرے کا عکس ریکارڈنگ اور لائیو دونوں انداز میں پوری دنیا میں دیکھا جارہا ہوتا ہے اور دنیا میں خواتین بھی انہیں دیکھ کر سنتی ہیں.

میں نے  پردےکے حوالے سے یہ ایک حدیث پڑھی ہے  "حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں "میں اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں کہ عبد اللہ بن اُ م مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ،اور یہ آیات حجاب کے نزول کے بعد کی بات ہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ان سے پردہ کرو!" ۔۔۔ہم نے کہا" اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو نابیناہیں ۔نہ ہمیں دیکھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں ۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں تو نابینا نہیں ۔کیا تم اسےدیکھتی نہیں ؟ ) "تو کیا اس حدیث کو پڑھ کر خواتین کا کسی بھی مسجد کے امام صاحب بشمول خانہ کعبہ و مسجد نبوی کے امام صاحبان کو تلاوت سننے کی صورت میں بھی تصویر یا ویڈیو ز میں دیکھنا جائز ہوگا ؟

کیا ان امام صاحبان کو اپنے چہرے پر فیس ماسک کا استعمال نہ کرنا چاہیے تاکہ کسی عورت کی ان کے چہرہ کی طرف دیکھتے ہوئے بے پردگی نہ ہو ؟

  کیا ہمارے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے امام صاحبان کے علم میں درج بالا حدیث ہے ؟ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے ؟

(2)  کیا جس طرح اسلام میں عورت پر محرم و غیر محرم کے اصول و احکامات ہیں ویسے ہی مردوں کے لیے بھی ہیں؟

(3)  اگر عورت کسی جگہ میں یا جلسے میں یا تقریب میں تلاوت کرے ،تو اس کی تلاوت شدہ ویڈیوز کو جس میں عورت کا چہرہ نظر آرہا ہو دیکھا جاسکتا ہے ؟

(4)اوپر  مذکور حدیث کا مکمل حوالہ بتا کر برائے مہربانی ان تمام سوالات کے بارے میں اچھی طرح راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

1. واضح رہے کہ تصویر  کھینچنا کھنچوانا ، اوراسے دیکھنا سب ناجائز اورحرام ہے،چاہے دینی تعلیمات و احکام کی تشہیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو،چناں چہ   ائمہ حرمین کی ویڈیو بھی بنانا،بنوانا جائز نہیں ہے،اور ان کی ویڈیو کو دیکھنا مرد و عورت دونوں کے لیے جائز نہیں البتہ تصویر کے بغیر آڈیو تلاوت سننا جائز ہے۔

2.پردہ کا حکم عورتوں کے لیے ہے نہ کہ مردوں کے لیے؛  البتہ مردوں کے  لیے بھی کسی نامحرم عورت کودیکھنا جائز نہیں ہے۔

3.عورت کا کسی مخلوط جلسے یا مخلوط تقریب میں تلاوت کرنا اور دوسرے لوگوں کا، اس کے کھلے چہرے پر مشتمل تلاوت کی ویڈیو دیکھنا شرعاً جائز نہیں۔

اور اگر تصویر کے بغیر صرف آواز سننے سے فتنہ کا اندیشہ تو صرف آواز سننا بھی جائز نہیں ہوگا۔

4.مذکورہ حدیث اکثر کتبِ احادیث میں مختلف الفاظ کے ساتھ مذکور ہے،جن میں سے کچھ کتب کے نام ذکر کیے جاتے ہیں:سنن ابو داؤد،جامع ترمذی، سنن نسائی، مشکاۃ المصابیح، کنز العمال۔

مسند احمد میں ہے:

"عن الزهري، أن نبهان حدثه أن أم سلمة حدثته، قالت: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وميمونة، فأقبل ابن أم مكتوم حتى دخل عليه، وذلك بعد أن أمرنا بالحجاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احتجبا منه ". فقلنا: يا رسول الله، أليس أعمى، لا يبصرنا ولا يعرفنا؟ قال: " أفعمياوان ‌أنتما، ألستما تبصرانه."

 ‌‌(حديث أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ،١٥٩/٤٤، رقم الحديث ٢٦٥٣٧، ط: مؤسسة الرسالة)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى: {‌ولايضربن بأرجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن} روى أبو الأحوص عن عبد الله قال: "هو الخلخال"، وكذلك قال مجاهد: "إنما نهيت أن تضرب برجليها ليسمع صوت الخلخال" وذلك قوله: {ليعلم ما يخفين من زينتهن} . قال أبو بكر: قد عقل من معنى اللفظ النهي عن إبداء الزينة وإظهارها لورود النص في النهي عن إسماع صوتها; إذ كان إظهار الزينة أولى بالنهي مما يعلم به الزينة، فإذا لم يجز بأخفى الوجهين لم يجز بأظهرهما; وهذا يدل على صحة القول بالقياس على المعاني التي قد علق الأحكام بها، وقد تكون تلك المعاني تارة جلية بدلالة فحوى الخطاب عليها وتارة خفية يحتاج إلى الاستدلال عليها بأصول أخر سواها. وفيه دلالة على أن المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب; إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها; ولذلك كره أصحابنا أذان النساء; لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك، وهو يدل أيضا على حظر النظر إلى وجهها للشهوة; إذ كان ذلك أقرب إلى الريبة وأولى بالفتنة."

(ومن سورة النور،‌‌في إباء أحد الزوجين اللعان،٤١٢/٣،ط: دار الكتب العلمية بيروت)

تفسیر ِکشاف میں ہے:

"يا أَيُّهَا النَّبِيُّ ‌قُلْ ‌لِأَزْواجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذلِكَ أَدْنى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً (59)

الجلباب: ثوب واسع أوسع من الخمار ودون الرداء تلويه المرأة على رأسها وتبقى منه ما ترسله على صدرها. وعن ابن عباس رضى الله عنهما: الرداء الذي يستر من فوق إلى أسفل."

‌‌[سورة الأحزاب،٥٥٩/٣،ط:: دار الريان للتراث)

صحیح البخاري میں ہے:

"عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال سمعتُ النبيَّ صلی اللّٰہ علیه وسلم یقول: ان أشدَّ الناس عذاباً عند اللّٰہ المصوّرون."

( باب بیان عذاب المصورین یوم القیامة،٥٦/٤،ط : مكتَبة المَعارف )

وفیہ ایضا:

"عن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌لم ‌يكن ‌يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه:عن أبي زرعة قال: دخلت مع أبي هريرة دارا بالمدينة، فرأى في أعلاها مصورا يصور، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:[قال الله عز وجل:  ومن أظلم ممن ذهب يخلق كخلقي، فليخلقوا حبة، وليخلقوا ذرة."

‌‌( باب التصاوير‌‌،باب نقض الصور،٥٦/٤،ط : مكتَبة المَعارف)

ریاض الصالحین میں ہے:

 "عن ابن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «‌إن ‌الذين ‌يصنعون ‌هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم». متفق عليه."

(باب تحريم تصوير,٤٦٩،ط : دار ابن كثير)

عمدة القاري میں ہے:

"عن قتادة قال کنتُ عند ابن عباس رضي اللّٰہ عنه(الی قوله) حتی سئل، فقال: سمعتُ محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من صور صورةً في الدنیا، کلف یوم القیامة أن ینفخ فیها الروح و لیس بنافخ : وقال العیني نقلاً عن التوضیح: قال أصحابنا و غیرهم تصویرُ صورة الحیوان حرام أشد التحریم وهو من الکبائر و سواء صنعه لما یمتهن أو لغیرہ فحرام بکل حال، لأن فیه مضاهات بخلق اللّٰہ۔۔۔۔ أما مالیس فیه صورة حیوان کالبحر ونحوہ، فلیس بحرام، و بمعناہ قال جماعة العلماء مالک والسفیان وأبو حنیفة و غیرهم."

 ‌‌(باب ‌من ‌صور ‌صورة كلف يوم القيامة أن ينفخ فيها الروح وليس بنافخ،٢٢/٧٥،ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں  ہے :

"(قوله ولبس ثوب فيه تماثيل) عدل عن قول غيره تصاوير لما في المغرب: الصورة عام في ذي الروح وغيره، والتمثال خاص بمثال ذي الروح ويأتي أن غير ذي الروح لا يكره قال القهستاني: وفيه إشعار بأنه لا تكره صورة الرأس، وفيه خلاف كما في اتخاذها كذا في المحيط، قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها."

(كتاب الصلاة،٦٤٧/١، ط : سعيد)

وفیہ ایضا:

"‌فحكمه ‌حكم ‌النساء، وهو عورة من قرنه إلى قدمه لا يحل النظر إليه عن شهوة."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في النظر والمس،٣٦٥/٦،ط : دار الفكر)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال  :  میں نے اپنے گھر میں عرصہ سے تجوید بقدر احتیاج سکھائی ہے،  اللہ کا شکرہے (اب عورتیں ) باقاعدہ پڑھنے لگی ہیں، جن لوگوں کو اِس اَمر کی اِطلاع ہے وہ کبھی آکر یوں کہتے ہیں کہ ہم سننا چاہتے ہیں، اور ہیں معتمد لوگ ، تو  پردہ میں سے  سنوا دینا جائز ہے یا نہیں  ؟  اگرچہ ایسا کیا نہیں،  بعد علم جیسا ہوگا ویسا کروں گی۔"

 "الجواب  :  ہرگز جائز نہیں۔  لأنه إسماع صوت المرأة بلا ضرورة شرعیة       ( کیوں کہ یہ عورت کی آواز کو بغیر شرعی ضرورت کے سنانا ہے)۔"

( 4/200، ط: دارالعلوم کراچی) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں