میں ایک پیشہ ور گرافک ڈیزائنر ہوں اور اپنے روزگار کے لیے مختلف قسم کے ڈیزائننگ پراجیکٹس پر کام کرتا ہوں، جس میں سوشل میڈیا پوسٹس، بینرز، پوسٹرز، اسٹینڈی، پینافلیکس، بروشرز، کتابوں کے سرورق، اور دیگر پرنٹ و ڈیجیٹل مواد شامل ہوتا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ اس کام کے دوران مجھے بعض اوقات انسانوں، جانوروں، یا کارٹون نما کرداروں کی تصاویر یا خاکے (illustrations) شامل کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ تصاویر بعض اوقات ڈیجیٹل (software) شکل میں ہی استعمال ہوتی ہیں، اور بعض اوقات ہارڈویئر (پرنٹ شدہ) شکل میں، جیسے کہ پینافلیکس، پوسٹر یا اسٹینڈی پر چھپوانا ہوتا ہے۔
اب میرا سوال درج ذیل نکات کی صورت میں ہے:
1. کیا گرافک ڈیزائننگ کے دوران انسانوں یا جانوروں کی تصاویر کا استعمال شرعاً جائز ہے؟ اگر صرف سافٹ ویئر میں رہیں، جیسے کہ سوشل میڈیا پوسٹ، ویب سائٹ یا موبائل ایپ وغیرہ۔ اور اگر یہ تصاویر پرنٹ ہو کر کسی جگہ چسپاں کی جائیں، جیسے کہ بینر، پوسٹر، یا سٹینڈی وغیرہ۔
2. کیا کارٹون، خاکے، یا نیم حقیقی (semi-realistic) شکل میں بنی تصاویر بھی تصویر کے حکم میں آتی ہیں؟
3. اگر کوئی صارف (Client) مجھ سے ایسی ڈیزائننگ کرواتا ہے جس میں انسانوں یا جانوروں کی تصاویر شامل ہوں، تو کیا شرعی طور پر مجھے یہ کام کرنا جائز ہے؟
4. الیکشن مہم، تعلیمی پوسٹر، یا کسی تنظیمی مقصد کے لیے بنائے گئے پوسٹرز جن میں امیدوار یا شخصیات کی تصاویر شامل ہوں — کیا ان میں تصویر شامل کرنا یا بنانا شرعاً درست ہے؟
5. اگر ضرورت کے تحت یا مجبوری کی حالت میں کوئی ڈیزائنر ایسا کام کرتا ہے، تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کو “ضرورت” یا “عمومی بگاڑ سے بچاؤ” کے اصول کے تحت کچھ گنجائش دی جا سکتی ہے؟ اگر کوئی شخص اس کو چھوڑ دے تو کیا وہ گناہ سے بچتا ہے؟ اور اگر کرے تو کتنی حد تک معاف یا جائز سمجھا جا سکتا ہے؟
6. ڈیزائنر ہونے کی حیثیت سے میری کمائی کی شرعی حیثیت کیا ہوگی اگر ان کاموں کا کچھ حصہ ان تصاویر پر مشتمل ہو؟
7. اگر میں کسی تصویر کی بجائے silhoutte یا شبیہاتی انداز (outline style) استعمال کروں تو کیا اس میں بھی تصویر کا حکم آتا ہے؟
1:جاندار کی تصویر سازی خواہ ڈیجیٹل صورت میں ہو یا پرنٹ کی صورت میں ،شرعا ناجائز اورحرام ہے،حدیث مبارکہ میں اس سے متعلق سخت عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے۔لہذا سائل کے لیے تصاویر ڈیزائن کرنا جائز نہیں ، چاہے وہ پرنٹ ہوں یا نہ ہوں ۔
2:نیم حقیقی، اینیمیشن کارٹون بھی تصویر سازی کے حکم میں ہونے کی وجہ سے شرعا ناجائز اور حرام ہے۔
3:انسانوں یا جانوروں کی تصاویر پر مشتمل ڈیزائننگ کرنا جائز نہیں۔اور اس کی اجرت لینا بھی جائز نہیں ۔
4:ذی روح کی تصویر سازی خواہ کسی بھی غرض سے ہو،شرعا جائز نہیں ہے۔
5:جاندار کی تصویر سازی کا کام جائز نہیں ، ڈیزائننگ کے شعبے میں دیگر بہت سارے جائز کام موجود ہیں ،انہیں کمائی کی غرض سے اختیار کیے جاسکتا ہے ،تصاویر ہی کی ڈیزائننگ مجبوری یا ضرورت میں شامل نہیں ۔
ضرورت اور عمومی بگاڑ سے بچانے کی غرض سے تصویر سازی سے کوئی خاص مقصود ہو تو وضاحت کے بعد دوبارہ دریافت کرلیں ۔
6:آمدنی کا جو حصہ تصویر سازی کی بنیاد پر حاصل ہورہا ہو، وہ جائز نہیں ہوگا۔
7:تصویر کا اصل دار و مدار سر، چہرہ اور اس کے خد وخال کا اس طور پر ہونا کہ وہ کسی خاص جاندار کی حکایت اور پہچان دے، لہٰذا اگر کسی تصویر کا چہرہ اگر چہ سائے کی طرح مکمل مٹاہوا ہے، لیکن وہ جاندار کی حکایت کر رہا ہے،اگرچہ اس میں چہرہ کی مکمل بناوٹ نہیں ہےتب بھی شرعا وہ تصویر کے حکم میں شامل ہے۔
مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون»."
(كتاب اللباس، باب التصاوير، ج2، ص1274، ط:المكتب الإسلامي)
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن مسعودکہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے"۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے :
"(أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لا تعيش بدونه.
و في الرد: (قوله أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلا ينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلا يتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلا. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيرا يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل."
(كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ج:1،ص: 648،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا."
(كتاب الصلوة، باب مايفسد الصلوة ومايكره، ج:1، ص:647، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن