بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تصاویر پر لائک کرنے پر أجرت لینا


سوال

میں ایک آنلائن کمپنی کے لئے کام کرتا ہوں جس کی تفصیل یہ  ہے  کہ اس میں 98 $ سے رجسٹریشن کر کے وی آئی  پی  ون ملتا ہے اس کے بعد روزانہ ٹویٹر کی تین فوٹو ٹاسک میں ملتی ہیں،  اور وہ پروڈکٹ یا کسی سیلیبریٹی کی فوٹو ہوتی ہیں ان کے لائک کرنے کے عوض روزانہ 3.66 $  ملتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر اپنے لنک کے تھرو لوگوں کو انوائٹ کرو تو جب وہ ماقبل شرائط کے ساتھ رجسٹر ہوتے ہیں تو اس کا مقرر کردہ بونس بھی ملتا ہے اور ان کے روزانہ کام کرنے  کی کمیشن بھی، بشرطیکہ وہ روزانہ کام کریں۔

برائے مہربانی اس کا حکم بتائیں کہ آیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اور اگر نا جائز ہے تو اس سے کمائے گئے 90000  روپے کے ساتھ کیا کِیا جائے؟

جواب

سائل کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں مذکورہ کمپنی کا ممبر بننا، اور اس سے کمانا  بچند  وجوہ شرعا جائز نہیں:

1۔ کمپنی میں رجسٹریشن  کے وقت 98 ڈالر  جمع کرانے  کے بعد  روزانہ تین تصاویر  پر لائک کرنے کا حق حاصل کرنا، جائز نہیں، کیوں کہ  مذکورہ رقم کی ادائیگی  کے عوض  کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے شرعا مبیع قرار دیا جا سکے،  اور نہ ہی  اسے شرعا اجارہ قرار دیا سکتا ہے، اور  مذکورہ رقم ناقابل واپسی ہوتی ہے،  جس کی حیثیت بجز رشوت کے کوئی اور  نہیں ۔

التعريفات الفقهية للبركتي میں ہے:

" الرشوة: مثلثة ما يعطى لإبطال حق أو لإحقاق باطل قاله السيد. وفي "كشاف المصطلحات": الرشوة لغة: ما يتوصل به إلى الحاجة بالمضايقة بأن تصنع له شيئا ليصنع لك شيئا آخر. قال ابن الأثير: وشرعا: ما يأخذه الآخذ ظلما بجهة يدفعه الدافع إليه من هذه الجهة وتمامه في صلح الكرماني".

( الراء، ص: ١٠٤، ط: دار الكتب العلمية)

2۔ تصاویر،   دیکھنا اور ان  پر لائک کرنا جائز نہیں، نیز   لائک کرنا  ایسا عمل نہیں جس کے عوض أجرت   لینا شرعا جائز ہو۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا (تمليك نفع) مقصود من العين (بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دارا لا ليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية."

( كتاب الاجارة، ص: ٥٦٩،ط::دار الكتب العلمية)

الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے: 

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة . ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير."

( المطلب الأول الأجير الخاص، الإجارة على المعاصي والطاعات، ١ / ٢٩٠، ط: الكويت)

3۔ کسی پروڈکٹ پر لائک کرنے   پر أجرت لینا،  بھی جائز نہیں، کیوں کہ ایسا کرنا اصل خریدار کے لیے دھوکہ دہی کا باعث ہے، یعنی اصل خریدار پروڈکٹ  پر موجود لائکس   اس چیز کے قابل بھروسہ ہونے کی علامت ہوتی ہے، جس کی  بنیاد پر اصل خریدار اس کا انتخاب کرتا ہے،  جبکہ پروڈکٹ  پر لائکس کرنے والے اس پروڈکٹ کی حقیقت سے نا آشناء ہوتے ہیں۔

4۔  اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی  ہے جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کو ہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے جب کہ  اس نے  اس نئےاکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور  اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا  محنت کی کمائی   کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور  اپنی محنت   کی کمائی   حاصل کرنے کی ترغیب ہے  اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قراردیا ہے۔ 

مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

١٧٢٦٥ -" حدثنا يزيد، حدثنا المسعودي، عن وائل أبي بكر، عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج، عن جده رافع بن خديج، قال: قيل: يا رسول الله، أي الكسب أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور. "

(مسند الشاميين، حديث رافع بن خديج، ٢٨ / ٥٠٢، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "(وعن رافع بن خديج قال: قيل: يا رسول الله أي الكسب) : أي أنواعه (أطيب) ؟ أي أحل وأفضل (قال: " عمل الرجل بيده) ، أي من زراعة أو تجارة أو كتابة أو صناعة (وكل بيع مبرور) ... والمراد بالمبرور أن يكون سالما من غش وخيانة، أو مقبولا في الشرع بأن لا يكون فاسدا ولا خبيثا أي رديا، أو مقبولا عند الله بأن يكون مثابا به".

(كتاب البيوع، باب الكسب وطلب الحلال، ٥ / ١٩٠٤، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

5۔  اپنے لنک کے ذریعہ دوسروں کو رجسٹرڈ کروانے  اور  اس ممبر  کے کام کرنے  پر پہلے ممبر کو کمیشن جو دیا جاتا ہے، وہ کمیشن بھی ناجائز ہے، کیوں کہ شرعا کمیشن اس کام پر لینا جائز ہے، جس کام میں خود کا عمل بھی شامل ہو، جبکہ مسئولہ صورت میں ذیلی ممبر کے کام میں پہلے ممبر کا کوئی عمل شامل نہیں ہوتا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" مطلب في أجرة الدلال

 [تتمة]قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه ."

( كتاب الاجارة، باب الاجارة الفاسدة، ٦ / ٦٣، ط: دار الفكر)

لہذا صورت مسئولہ میں اب تک جو کمائی کی ہے، وہ ناجائز کمائی ہے، جسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا واجب ہوگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

" والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه. "

( كتاب البيع الفاسد، مطلب فيمن ورث مالا حراما، ٥ / ٩٩، ط: دار الفكر)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ١ / ٣٤، ط: المکتبة الأشرفیة)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں ہے:

"إن ههنا شيئان:

أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها".

( ابواب الطهارة، باب ما جاء لا تقبل صلاة بغير طهور، ١ / ٣٨، ط: دار التراث العربي - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں