بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر کشی کاحکم اور عموم بلوی


سوال

تصویر کشی جو کہ معاشرے کے افراد کا جزءِ  زندگی بن چکا ہے، ہر ایک شخص کے دل سے اس کی قباحت اور شناعت نکل چکی ہے، کیا عموم بلوٰی کی وجہ سے حرمت کا حکم ختم ہوجائے گا اور تصویر لیناجائزہو سکتا ہے ؟

جواب

   دینِ اسلام میں جان دار کی  تصویر سازی، کسی بھی شکل میں ہو (متحرک ہو یا ساکن)کسی بھی طریقے سے بنائی جائے، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، حرام ہے، اس تنوع واختلاف اور عوام میں کثرت سے استعمال کی وجہ  سے صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں، ماضی قریب تک تصویر سازی کی حرمت کا مسئلہ اہلِ علم کے ہاں مسلم و متفق علیہ رہا ہے اور اسے بدیہی امور میں سمجھا جاتا تھا، یعنی جس کو عرف نے تصویر کہا وہ تصویر قرار پائی، نیز عموم بلوی کا اعتبار وہاں ہوتاہے جہاں کوئی نص نہ ہو اگر کسی چیز کے خلاف نص قطعی موجود ہوتو وہاں عموم بلوی کی وجہ سے اس چیز کے حکم میں تخفیف نہیں ہوگی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن نافع، أن ابن عمر، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم ."

"ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ مورتیں بناتے ہیں ان کو قیامت میں عذاب ہو گا، ان سے کہا جائے گا جلاؤ ان کو جن کو تم نے بنایا۔"

"عبد الله بن مسعود يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أشد ‌الناس ‌عذابا يوم القيامة المصورون»"

"ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔"

عن النضر بن أنس بن مالك، قال: كنت جالسا عند ابن عباس فجعل يفتي ولا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى سأله رجل فقال: إني رجل أصور هذه الصور، فقال له ابن عباس: ادنه فدنا الرجل، فقال ابن عباس: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من صور صورة في الدنيا كلف أن ينفخ فيها الروح يوم القيامة، وليس بنافخ»

(كتاب اللباس والزينة،باب لاتدخل الملائكة بيتافيه كلب ولاصورة،ج:3،ص:1669/1671/1670،الرقم:2108،ط:دارإحياءالتراث العربي)

ترجمہ: سیدنا نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ فتویٰ دیتے تھے اور حدیث نہیں بیان کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا: میں مصور ہوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے پاس آ، وہ پاس آیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص دنیا میں تصویر بنائے اس کو قیامت میں تکلیف دی جائے گی اس میں جان ڈالنے کی اور وہ جان نہ ڈال سکے گا۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"ووجه التخفيف ‌عموم ‌البلوى والضرورة وهي توجب التخفيف فيما لا نص فيه."

(كتاب الطهارت،باب الأنجاس،ج:1،ص:75،ط:دارالكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں