بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تسمیہ کو الٹ (بائیں سے دائیں جانب) لکھنا


سوال

ایک نجی  ہسپتال میں سامنے داخلی دروازوں کی دیوار اور اندونی ہال اور دروازوں پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہے، اور یہ بسم اللہ الرحمن الرحیم دو طرح سے لکھا ہوا ہے، ایک جیساکہ عموماً لکھا جاتا ہے ، دائیں جانب سے سیدھا لکھا ہوا ہے، اور دوسرا بائیں جانب سے دائیں جانب کی طرف الٹا لکھا ہوا ہے۔جس کی تصاویر سوال کے ساتھ منسلک ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس طرح بائیں جانب سے الٹا لکھنے کا کیا حکم ہے ؟اس کو ختم کردینا چاہیے یا نہیں ؟کہ جس سے قرآنی آیت کی بے ادبی ہو،جب کہ انتظامیہ کو اس بارے میں آگاہ کیا تو انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔

جواب

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘ جو کہ قرآن کریم کی ایک آیت کریمہ ہے، اِسے بائیں جانب سے دائیں جانب یعنی الٹا لکھنا جائز نہیں ہے، مذکورہ ہسپتال کی انتظامیہ کو چاہیے کہ  بسم اللہ  دائیں جانب سے بائیں جانب لکھے، بائیں سے  دائیں جانب جو بسم اللہ لکھی ہے اسے درست کرے۔

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ؒ میں ہے :

"وقال أشهب سئل مالك هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء فقال لا إلا على الكتبة الأولى ، رواه الداني في المقنع ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة ۔وقال في موضع آخر سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك قال لا ۔قال أبو عمرو يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ نحو الواو في أولوا ۔وقال الإمام أحمد يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير ذلك ۔ وقال البيهقي في شعب الإيمان من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف ولا يخالفهم فيه ولا يغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكا عليهم ."

(الاتقان ، النوع السادس والسبعون فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ،ص:743-744،ط:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

جواہر الفقہ، مولانا مفتی محمد شفیع ؒ ،قرآن کا رسم الخط، ص:90،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101552

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں