بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بقدرِ تشہد بیٹھنے کے بعد سلام پھیرے بغیر اٹھ کر جانے کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

بقدرِ تشہد بیٹھا اور سلام پھیرے بغیر اٹھ کر چلا گیا تو کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ آخری قعدہ میں تشہد کا پڑھنا اور لفظ "سلام" کے ساتھ نماز کا ختم کرنا واجب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر تشہد پڑھنا اور سلام کہنا بھول گیا (سہوا تشہد اور  سلام چھوڑ دیا)  اور تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد  اٹھ کر چلا گیا تو بات کرنے سے پہلے یا مسجد سے نکلنے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ کر تشہد پڑھ لے اور  سجدہ سہو کر کے سلام پھیر کر نماز مکمل کرلے اور اگر مسجد سے نکل گیا یا بات کر لی تو پھر نماز مکروہ  تحریمی کے ساتھ ادا ہوجائے گی  یعنی فرضیت ساقط ہوجائے گی لیکن  وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی اور وقت نکلنے کے بعد اعادہ مستحب ہوگا۔ اگر جان  بوجھ کرتشہد اور  سلام چھوڑ دیا تو  سجدہ سہوکافی نہیں ہوگا بلکہ نمازکو دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والتشهدان) ويسجد للسهو بترك بعضه ككله وكذا في كل قعدة في الأصح إذ قد يتكرر عشرا.

(قوله والتشهدان) أي تشهد القعدة الأولى وتشهد الأخيرة والتشهد المروي عن ابن مسعود لا يجب بل هو أفضل من المروي عن ابن عباس وغيره خلافا لما بحثه في البحر كما سيأتي في الفصل الآتي."

(کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۶۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولفظ السلام) مرتين فالثاني واجب على الأصح برهان، دون عليكم؛ وتنقضي قدوة بالأول قبل عليكم على المشهور عندنا وعليه الشافعية خلافا للتكملة

(قوله ولفظ السلام) فيه إشارة إلى أن لفظا آخر لا يقوم مقامه ولو كان بمعناه حيث كان قادرا عليه."

(کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۶۸،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له.

قوله إن لم يسجد له) أي للسهو، وهذا قيد لقوله والسهو، إذ لا سجود في العمد، قيل إلا في أربعة لو ترك القعدة الأولى عمدا أو شك في بعض الأفعال فتفكر عمدا حتى شغله ذلك عن ركن أو أخر إحدى سجدتي الركعة الأولى إلى آخر الصلاة عمدا أو صلى على النبي - صلى الله عليه وسلم - في القعدة الأولى عمدا. وزاد بعضهم خامسا وهو: لو ترك الفاتحة عمدا فيسجد في ذلك كله ويسمى سجود عذر، ولم يستثن الشارح ذلك لما سيأتي تضعيفه في باب سجود السهو. ورده العلامة قاسم أيضا بأنا لا نعلم له أصلا في الرواية ولا وجها في الدراية وهل تجب الإعادة بترك سجود السهو لعذر، كما لو نسيه أو طلعت الشمس في الفجر؟ لم أره فليراجع والذي يظهر الوجوب كما هو مقتضى إطلاق الشارح لأن النقصان لم ينجبر بجابر، وإن لم يأثم بتركه فليتأمل."

(کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ ج نمبر ۱ ص نمبر ۴۵۶،ایچ ایم سعید)

حاشية الطحطاوي میں ہے:

"كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوباً في الوقت، وأما بعده فندب".

(ص نمبر ۴۴۰،دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں