بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تاش پتوں کی خرید و فروخت اور اس کے کھیلنے کا حکم


سوال

ہمارے یہاں ہائی وے پر ایک ہوٹل ہے ،وہاں پر کسٹمر کھانا کے لیے آتے ہے ،لیکن وہ لوگ کھانا کھانے کے بعد تاش پتے جو جگاڑ کے لیے کھیلے جاتے ہیں ،کسٹمر وہ مانگتے ہیں تو ہم   اس کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تاش کھیلنا جس میں جوا ہوشر عاًناجائز اورحرام ہے،اگرجوا نہ ہوتب بھی اس میں قیمتی وقت کا ضیاع ضرور ہے اوریہ لہوو لعب ہے قرآن کریم میں اللہ  تعالی نے کامیاب مؤمن کے اوصاف میں ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ جو لہوولعب سے اعراض کرتے ہیں ( بچتے ہیں ) اس آیت کے تحت حضرت شیح الہند رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ خود تولہوولعب میں مصروف نہیں ہوتے بلکہ اگرکوئی اور شخص مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں ۔

تفسیرعثمانی میں ہے :

"وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ"

تفسیر:فضول وبے کار مشغلوں میں وقت ضائع نہیں کرتے ،کوئی دوسرا شخص لغو اور نکمی بات کہے توادھرسے منہ پھیر لیتے ہیں ۔

(سورۃ المؤمنون،ج:2،ص:631،ط:دارالاشاعت کراچی)

چوں کہ اس طرح کے  کھیل میں زیادہ مشغول رہنےاور آگےجاکرگناہ اور معصیت کا سبب بننےکی  وجہ سےشرعاً ناجائز ہے، لہذا تاش پتوں کی خریدوفرخت کرنا یاکسی کو فراہم کرناجائز نہیں ہے ، گناہ اور معصیت کا سبب اور معاونت ہےاور اس سے اجتناب کرناضروری ہے۔

تفسیربیان القرآن میں ہے:

"وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ "(لقمان:6)

ترجمہ:اوربعضاآدمی(ایسا )بھی ہے جوان باتوں کا خریدار بنتاہے جواللہ سے غافل کرنے  والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے  بے  سمجھےبوجھے گمراہ کرلے اوراس کی ہنسی اڑادے ایسے لوگوں کےلیےذلت کاعذاب ہے۔

(ج:3،پارہ :21،سورۃ لقمان،آیت:6،ص:145،ط:رحمانیہ)

       روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدہ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث)

ترمذی شریف میں ہے:

"عن أبي أمامة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن، ولا خير في ‌تجارة فيهن وثمنهن حرام، وفي مثل ذلك أنزلت عليه هذه الآية {ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله} إلى آخر الآية".

(ابواب التفسير،باب ومن سورة لقمان، ج:5،ص: 198،ط:دارالغرب الاسلامي -  بيروت)

            حدیث شریف  میں ہے:

"علي بن الحسين رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه» . رواه مالك وأحمد."

(مشكاة المصابيح باب حفظ/ اللسان الفصل الثانی ۳/۱۳۶۱ ط: المكتب الإسلامي بيروت)

تکملۃ فتح الملہم میں ہے :

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

(قبیل کتاب الرؤیا ،ج:۴،ص:۴۳۵،دارالعلوم کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

’’تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے‘‘.

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:9،ص:204،ط:دارالاشاعت کراچی)

جامع العلوم والحکم میں ہے:

"فالحاصل من هذه الأحاديث كلها ان ما حرم الله الإنتفاء به فإنه يحرم بيعه وأكل ثمنه كما جاء مصرحا به في الرواية الـمـتـقـدمـة ان الله إذا حرم شيئا حرم ثمنه وهذه كلمة عامة جامعة تطرد في كل ما كان المقصود من الإنتفاع به حرام، وهو قسمان: احدهما ما كان الإنتفاع به حاصلا مع بقاء عينه كالأصنام . ...... ويلتحق بذالك ما كانت منتفعة محرمة ككتب الشرك والسحر والبدع والضلال وكذالك الصور المحرمة وآلات الملاهي كالطنبور وكذالك شهداء الجواري للغناء".

(جامع العلوم والحكم لابن رجب، ج:3،ص: 1211-1212، ط :دالسلام للطبا عة والنشروالتوزيع -  بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں