بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تاش کھیلنے کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ ہم دوست صرف وقت گزاری کے ارادے  سے تاش کھیلتے  ہیں،  مگر ہم لوگ اس کھیل میں کوئی شرط بھی نہیں لگاتے اور  اپنے فرائض بھی پورے کرتے ہیں، نماز کے وقت مسجد  جا کر جماعت کے ساتھ نماز  بھی ادا کرتے ہیں، قرآن پاک بھی پڑھتے ہیں تو ایسی صورت میں کہ ہم فرض نمازیں تاش کی وجہ سے نہیں چھوڑتے،  جوا بھی نہیں کھیلتے تو کیا ہم گپ شپ اور وقت گزاری کے لیے  تاش کھیل سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ ایک کامیاب مسلمان کی پہچان یہ ہے  کہ وہ لغو اور فضول کاموں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مؤمنین کی صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ   فلاح یاب مؤمنین وہ ہیں، جو لغو اور فضول باتوں سے دور  رہتے ہے۔
لہٰذا ہر ایسا کام جس سے کوئی دینی و دنیوی  فائدہ حاصل نہ ہو، اُس میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنا درست نہیں ہے۔

باقی  کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

اس تفصیل کی رو سے اگر تاش شرط لگاکر کھیلاجائے تو وہ  جوا ہے اور اس کا حرام ہونا واضح ہے، اور بلاشرط کھیلنے میں اگر ایسا انہماک ہوکہ فرائض میں کوتاہی وغفلت ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے صرف وقت گزاری کے لیے بلاشرط  کھیلنے میں بھی  کوئی غرضِ صحیح نہیں ہے، بلکہ لہو اور عبث کام ہے، اس لیے بہرصورت اس سے اجتناب کرنا چاہئے، نیز اس طرح کے کھیل کی عادت پڑجائے تو رفتہ رفتہ یادِ خدا اور نمازوں سے غفلت ہی اس کا انجام ہے، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔

تکملۃ فتح الملہم میں ہے :

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه".

(قبیل کتاب الرؤیا ،ج:۴،ص:۴۳۵،دارالعلوم کراچی)

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(سورۃ لقمان،ج:۱۱،ص:۶۶،دارالکتب العلمیۃ)

کفایت المفتی میں ہے :

’’تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:۹،ص:۲۰۴،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں