بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تاش کھیلنے کا حکم


سوال

تاش کھیلنا کیساہے؟

جواب

اگر تاش میں جوئے کی شرط لگائی جائے،یا تاش کھیلنےکی وجہ سے فرائض اور واجبات کی ادائیگی  میں کوتاہی ہوتی ہو،تب تو تاش کھیلناحرام ہے، اوراگر جو ئے کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ صرف  وقت گزاری کے لیے تاش کھیلاجائے، تو چوں کہ  پھر بھی یہ کئی  قباحتوں کامجموعہ ہے، مثلاً عام طورپر اس پرتصویروں کاہونا، اورمالی وجسمانی فائدہ سے  خالی چیز میں قیمتی  وقت ضائع  کرنا وغیرہ،اس بنا  پر تاش کھیلنے سے اجتناب کرناضروری ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (واللعب بالشطرنج والنرد وكل لهو) يعني لا يجوز ذلك لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كل لعب ابن آدم حرام إلا ثلاثا ملاعبة الرجل أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته لقوسه» وأباح الشافعي الشطرنج من غير قمار ولا إخلال بالواجبات؛ لأنه يذكي الأفهام، والحجة عليه ما روينا، والأحاديث الواردة في ذلك هي كثيرة شهيرة فتركنا ذكرها لشهرتها وفي المحيط ويكره اللعب بالشطرنج والنرد والأربعة عشر؛ لأنها لعب اليهود."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ٢٣٦/٨، ط:دار الكتاب الإسلامي)

کفایت المفتی میں ہے:

"تاش،  چوسر، شطرنج لہو و لعب کے طور پر کھیلنا مکروہ تحریمی ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغول اکثری طور پر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب  بن جاتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ  جاتی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ ، 9/204)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں