بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تسبیح تراویح پڑھنے کا حکم


سوال

کیا تسبیح تراویح پڑھنا لازمی ہے؟  اگر نہ پڑھا جائے تو کیا گناہ ہے؟

جواب

تراویح  میں ہر  چار  رکعت کے بعد کوئی خاص  تسبیح یا دعا احادیث  سے  ثابت نہیں ہے،  تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے  وہ بعض فقہاء نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛  لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے،اور  نہ ہی اس کے نہ پڑھنے کی وجہ سے کوئی گناہ ہوگا ،  مطلقاً  کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے، بلکہ اگر کوئی خاموش رہتاہے اور کوئی ذکر نہیں کرتا تو بھی حرج نہیں ہے۔ 

باقی تکلفات اور  التزامات  کے بغیر تسبیح کے  مذکورہ کلمات:

((«سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ نَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، نَسْأَلُك الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِك مِنْ النَّارِ»))

پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ  لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو  (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 46):

"(يَجْلِسُ) نَدْبًا (بَيْنَ كُلِّ أَرْبَعَةٍ بِقَدْرِهَا وَكَذَا بَيْنَ الْخَامِسَةِ وَالْوِتْرِ) وَيُخَيَّرُونَ بَيْنَ تَسْبِيحٍ وَقِرَاءَةٍ وَسُكُوتٍ وَصَلَاةٍ فُرَادَى، نَعَمْ تُكْرَهُ صَلَاةُ رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ".

"(قَوْلُهُ: بَيْنَ تَسْبِيحٍ) قَالَ الْقُهُسْتَانِيُّ: فَيُقَالُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ: «سُبْحَانَ ذِي الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوتِ، سُبْحَانَ ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَةِ وَالْقُدْرَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْجَبَرُوتِ، سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ، لَا إلَهَ إلَّا اللَّهُ نَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، نَسْأَلُك الْجَنَّةَ وَنَعُوذُ بِك مِنْ النَّارِ»، كَمَا فِي مَنْهَجِ الْعِبَادِ. اهـ".

(شامي، كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٦)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں