بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختم پر کھانا کھانا


سوال

ختم جو تراویح میں ہوتا ہے اس   ختم قرآن پر جو کھانا ہوتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 اگر ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے یا کھانا کھلانے   کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا  رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے اور  ایسی مٹھائی  (یعنی دلی رضامندی کے بغیر  لیے گئے چندے سے خریدی گئی مٹھائی)یا کوئی اور  چیز   کھانا  درست نہیں ، لیکن  اگر  یہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ کوئی اپنی  خوشی سے،  چندہ کیے بغیر تقسیم کردے یا چند افراد باہم مل کر  اپنی خوشی سے اپنی اپنی رقم ملا کر لوگوں کو کھانا کھلادیں تو  ایسے کھانے کا کھانا درست ہوگا، تاہم اس میں  بہتر  یہ ہے کہ مسجد  سے باہر  خارج مسجد  میں کھانا کھلایا جائے، اگر  مسجد  کے باہر  کوئی جگہ میسر نہ ہو تو  مسجد میں میں  کھانے والے افراد اعتکاف کی نیت کرلیں  تو اس کا کھانا درست ہوگا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ  کی تفسیر ختم کرکے لوگوں کی اونٹ ذبح کر کے دعوت کی تھی۔ (مستفاد فتاوی رحیمیہ 6/243)

حدیث میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثانی، 1/261، ط: رحمانيه)

 روایت  میں ہے:

"قال: تعلم عمر رضي الله عنه البقرة في اثنتي عشرة سنةً فلما ختمها نحر جزورًا."

( الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،۱/۳۰ط :دارالکتب العلميه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں