بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تروایح پڑھانے کے لیے آنے جانے کی مد میں سفری اخراجات لینا


سوال

تراویح پڑھانے والے یا سننے والے حافظ صاحب کا تراویح کی جگہ تک آنے اور جانے کی مد میں سفری اخراجات ،پٹرول وغیرہ کے اخراجات لینا کیسا ہے؟  کیا پہلے سے طے کر کے یہ اخراجات لیے جاسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ تراویح پر اجرت   طے کرکے  لینا دینا   جائز نہیں  ہے  ، اور اگر زبانی طور پر طے نہ کیا جائے لیکن عرف و رواج  ایسا ہو کہ زبانی طے کئے بغیر بھی لینا دینا طے  سمجھا جاتا ہو  تو اس صورت میں  بھی ناجائز ہے ، البتہ اگر  نہ  زبانی  طے کیا ہو اور نہ عرف و رواج میں طے سمجھا جاتا ہو ،اور نہ حافظ قرآن کے  دل میں  پڑھانے کا داعیہ  اور محرک یہ  بات ہو کہ کچھ ملے گا ، اس کے بعدچندہ کیے بغیر اگر کوئی شخص یا کئی اشخاص   اپنی طرف سے حافظ صاحب کو کچھ دینا چاہیں تو اس  صورت میں  فرداً فردًا  دینا اور حافظ صاحب کے لیے لینا جائز ہوگا  ، تاہم  آمد و رفت  کے سفری اخرجات دے کر حافظ صاحب کو باہر سے بلانا، اور ان کا قرآن شریف بلا معاوضہ سننااور پڑھانا جائز ہے ،اور یہ ثواب کا کام ہے ،اور  حافظ صاحب کے لئے اخرجات کا لینا جائز ہے ،اور پہلے سے طے بھی کیا جا سکتا ہے ، اس طور پر کہ وہ  لانے لے جانے کا انتظام کریں ،یا سفری اخرجات کی مدمیں  جو خرچہ آئے ،وہ نقد کی صورت میں دے دیں ۔  

تفسیر قرطبی میں ہے : 

"قوله تعالى: (وتعاونوا على البر والتقوى) قال الأخفش: هو مقطوع من أول الكلام، وهو أمر لجميع الخلق بالتعاون على البر والتقوى، أي ليعن بعضكم بعضا، وتحاثوا على ما أمر الله تعالى واعملوا به، وانتهوا عما نهى الله عنه وامتنعوا منه، وهذا موافق لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: (الدال على الخير كفاعله)."

(سورۃ المائدۃ،رقم الآیۃ :2 ،ج:4،ص:46،ط :دارالکتب ،قاہرہ) 

صحیح مسلم میں ہے : 

"عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "كل سلامى من الناس عليه صدقة كل يوم تطلع فيه الشمس." قال: " تعدل بين الاثنين صدقة. و تعين الرجل في دابته فتحمله عليها أو ترفع له عليها متاعه، صدقة". قال: "والكلمة الطيبة صدقة. و كل خطوة تمشيها إلى الصلاة صدقة و تميط الأذى عن الطريق صدقة."

(کتاب الزکوۃ، باب بیان أن اسم الصدقة یقع علی كل نوع من المعروف،ج:2،ص:699،ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت) 

صحیح بخاری میں ہے :  

"عن أبي هریرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله علیه و سلّم قال: "من كان يؤمن بالله و اليوم الآخر فليكرم ضيفه."

( باب: إكرام الضيف وخدمته إياه بنفسه ،ج:5،ص:2273 ،ط:دار ابن کثیر ،دمشق)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں