بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تبرع کے بعد رجوع نہیں ہوتا


سوال

میری پھوپھی كا کچھ ماہ قبل تقریباً 82 سال کی عمر میں   انتقال ہوا ، وہ کنواری تھی، میری پھوپھی کے والدین، دادا، دادی،نانا،نانی ،چھ بھائی اور دو بہنیں ان کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے، پھوپھی کے بھائیوں اور بہن کی اولاد زندہ ہیں،تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1.تین بھائی اور ایک بہن کی کوئی اولاد نہیں۔

2.ایک بھائی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

3. ایک بھائی کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔

4.ایک بھائی کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔

5. ایک بہن کے پانچ بیٹےاور ایک بیٹی ہے۔

یعنی کل پانچ بھتیجے، چار بھتیجیاں،پانچ بھانجے اور ایک بھانجی ہے، میری پھوپھی کاایک مکان ہے اور کچھ زیورات ہیں، میری پھوپھی پر ان کے بھائی کے بیٹے نے علاج کے لیے کافی پیسےخرچ کیے تھے ،البتہ اس نے قرض کی نیت سے نہیں دیے، مکان وزیورات کس طرح تقسیم ہوں گے؟ علاج پر خرچ کردہ رقم کا کیا ہوگا؟

جواب

سائلہ کی پھوپھی  کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کے حقوقِ متقدمہ (تجہیز وتکفین کے اخراجات) ادا  کرنے کے بعد، اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ، اور مرحومہ نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں سے اسے نافذ کرنے کےبعد باقی تمام ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 5 حصوں میں تقسیم کرکےمرحومہ کے ہر ایک بھتیجے کوایک ایک حصہ ملے گا، بھتیجیوں،بھانجوں اور بھانجیوں کو کچھ نہیں ملے گا۔

میت:5۔۔۔مرحومہ پھوپھی

بھتیجابھتیجابھتیجابھتیجابھتیجابھتیجیبھتیجیبھتیجی بھتیجی بھانجابھانجابھانجابھانجابھانجی
11111ممممممممم

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحومہ کے ہر ایک بھتیجے کو 20فیصد ملیں گے،نیز جو رقم سائلہ کی پھوپھی کے بھتیجے نے سائلہ کی پھوپھی کے علاج پر قرض کی صراحت کے بغیر خرچ کیا تھا وہ تبرع احسان تھا، لہذا اس رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔

العقود الدریہ میں ہے:

"ومنها في أحكام السفل والعلو: ‌المتبرع لا ‌يرجع على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب الکفالة، ج:1، ص: 288، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں