بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم سے پہلے ورثاء پر زکوۃ اور قربانی کا حکم


سوال

 مالِ وراثت پر تقسیم سے قبل زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟نیز اگر بالفرض تقسیم کریں تو سب ورثاء صاحب نصاب ہوجائیں گے تو کیا تقسیم سے پہلے اس مال وراثت کی وجہ سے ان پر قربانی واجب ہوگی؟ہمارے ہاں مثلاً والد کے انتقال کے بعد ورثاء عموماً متروکہ مال کئی سالوں تک تقسیم نہیں کرتے، زمینیں اور تجارت بدستور چلا رہے ہوتے ہیں، تو کیا اس طرح کئی سالوں تک غیر تقسیم شدہ مال میں زکوۃ اور قربانی واجب نہیں ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم کا کل ترکہ نقدی کی صورت میں  ہےاورسب نے اب تک باہمی رضامندی سے تقسیم نہیں کیا  توتناسب دیکھاجائے گاکہ اگرضرورت سے زائد مذکورہ نقدی تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں تو ہر ایک وراث صاحبِ نصاب بنتا ہے یانہیں،اگرتقسیم کی صورت میں  ہر وارث صاحب ِ نصاب بنتا ہے تو ہرایک عاقل وبالغ وارث پر  زکوۃاورقربانی واجب ہوگی اور اگر ہر ایک  صاحب ِ نصاب نہیں بنتا اور ان کےپاس ضرورت سےزائدنصاب کی مالیت کے برابر سامان وغیرہ بھی نہیں تو اس صورت میں کسی پر زکوۃ  واجب نہیں ہوگی،اور اگر نصابِ زکوۃ کا مالک نہیں لیکن ضرورت سے زائد اتناسامان ہے جس کی مالیت نصاب کے برابر ہے توقربانی واجب ہوگی،اور اگر کل ترکہ  جائیدا داورزمینوں کی صورت میں  ہے تو جب تک تقسیم نہ کریں کسی بھی وارث پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی، البتہ قربانی کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اگر ضرورت سے زائد نصاب کی مالیت کے برابر سامان ہے توقربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں ،اور اگر ترکہ میں دکا ن  ہے جس میں تجارت کررہے ہیں ،مرحوم کے انتقال کے بعدسب ورثاء اسے تقسیم کرکے الگ نہیں ہوئے بلکہ مشترک ہی کماتے اورخرچ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اگردکان کی مالیت کےعلاوہ مال ِ تجارت کی مالیت کے اعتبار سے ہر ایک وارث صاحبِ نصاب بنتا ہے تو ہر ایک بالغ وارث  پر  زکوۃ  واجب ہوگی اور اگر ہر ایک وارث صاحبِ نصاب نہیں بنتا  تو کسی پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی، اورقربانی کا حکم پہلے لکھاگیا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

 "(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ ‌مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره" .

(البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ج:۲،ص:۲۱۸،ط:دار الکتاب الاسلامی)

الدر مع الرد میں ہے:

"(هي) لغةً: اسمٌ لما يُذبح أيّام الأضحى .... وشرعاً (ذبح حيوان مخصوص بنيّة القربة في وقت مخصوص. وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلّق به) وجوبُ (صدقة الفطر) .... (قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يُساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية" .

(الدر مع الرد، کتاب الاضحیۃ،ج:۶،ص:۳۱۱۔۳۱۲،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں