بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ میں سے قربانی کرنا ، تقسیم میراث کی ایک صورت


سوال

میرے والد صاحب مورخہ 10 جون 2020 کو انتقال فرما گئے تھے۔ ان کے ترکے میں ایک دس مرلے کا گھر(جس کا اپر پورشن کرایہ پر دیا ہوا ہے ماہانا 19950 روپے جبکہ نیچے والے پورشن میں ہم خود رہتے ہیں)، ایک عدد کار جو کہ والد صاحب کے نام پر ہے، بینک اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے اور باقی پیسہ حلال انویسٹمنٹ سکیم میں رکھا ہوا ہے جس کا حلال منافع ملتا ہے، 10 مرلہ کا ایک پلاٹ (پلاٹ کی بیلیٹنگ مکمل ہے اور والد صاحب کی زندگی میں پلاٹ نمبر الاٹ ہو گیا تھا تاہم پلاٹ جس سوسائیٹی میں واقع ہے اس سوسائیٹی کی ڈویلپمنٹ(سڑکوں ، سیوریج وغیرہ) کے لیے سوسائیٹی انتظامیہ کی جانب سے پلاٹ مالکان کو ڈویلپنٹ چارجز ادا کرنے کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ ڈویلپمنٹ چارجز آٹھ سہ ماہی اقساط کی صورت میں ادا کرنے ہیں جن میں سے پہلی قسط والد صاحب نے اپنی زندگی میں ادا کر دی تھی جبکہ دوسری قسط اگست 2020 میں واجب الاد ہو گی )۔ ہم ایک بھائی ، دو بہنیں اور میری والدہ بھی موجود ہیں۔ مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق جائیداد کی تقسیم کیسے کی جائے؟ میرے والد صاحب کا اس سال قربانی کرنے کا بھی ارادہ تھا ، کیا ہم ان کی بینک میں موجود رقم یا جو اپر پورشن کا جو کرایہ ملتا ہے اس سے ان کے لیے قربانی کر سکتے ہیں؟

جواب

1- مرحوم والد کی کل جائیداد مکان اور نقد رقم کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد ما بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 32 حصوں میں تقسیم کرکے 4 حصے مرحوم کی بیوہ یعنی سائل کی والدہ کو ، 14 حصے مرحوم کے بیٹے کو، 7،7حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔

یعنی 100 روپے میں سے 12.50 روپے بیوہ کو ، 43.75 روپے مرحوم کو بیٹے کو ، 21.87 روپے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

2- والد کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ کی تمام رقم و جائیداد کے مالک ان کے ورثاء ہیں ان کی اجازت کے بغیر تصرف جائز نہیں ہے۔ اگر والد مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو ورثاء اپنے حصے کی رقم میں سے کریں یا اگر تمام ورثاء عاقل، بالغ ہیں اور سب خوشی سے اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ مرحوم کی اس رقم کو ان کی قربانی اور ایصالِ ثواب کی خاطر خرچ کردیا جائے تو ایسا بھی کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں