مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب کے انتقال کے بعد ایک بیوہ ،چار بیٹے اور سات بیٹیاں انہوں نے چھوڑی ہیں، اب ان میں وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی ؟ جب کہ ترکہ میں ایک مکان ہے، جس کی مالیت تین کروڑ روپے ہے۔ بیوہ، دو بیٹے اور سات بیٹیاں یہ گھر آپس میں تقسیم کر رہے ہیں، بقیہ دو بھائیوں کو اس گھر میں سے حصہ نہیں دے رہے، کہہ رہے ہیں کہ والد صاحب ان دو بیٹوں سے ناراض تھے، لہذا ان کو جائیداد میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ کیا واقعی میں ان دو بیٹوں کا حصہ نہیں ہوگا ؟ شریعت کے مطابق راہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد جن بیٹوں سے ناراض تھا ان کا بھی مرحوم کی جائیداد میں حصہ ہے، لہذا بعض ورثا کے اس قول کی شرعی حیثیت نہیں کہ "چار بھائیوں میں سے دو بھائیوں کو حصہ نہیں ملے گا ، کیوں کہ والد صاحب ان سے ناراض تھے "۔
والد صاحب کی جائیداد کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والد صاحب کے تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد ،اگر والد صاحب پر قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر والد صاحب نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں سے وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی مال کے 120 حصے کیے جائیں گے، اس میں سے 15 حصے بیوہ کو ،ہر بیٹے کو 14حصے اور ہر بیٹی کو 7 حصے ملیں گے ۔
یعنی 12.5 فی صد بیوہ کو،ہر بیٹے کو 11.666 فی صد اور ہر بیٹی کو 5.833 فی صد ملیں گے۔فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201099
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن