بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم میں تاخیر اور بہنوں کا اپنا حصہ مانگنا


سوال

 والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی جائیداد میں صرف ایک گھر تھا جس میں اب ہماری رہائش ہے اور جن بہنوں کی شادیاں ہوگئیں ہیں وہ میراث کا تقاضا کر رہی ہیں تو آیا اب گھر فوراً بیچنا پڑےگا يا کوئی مناسب جگہ ملنے پر ہی بیچا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ ترکہ کی تقسیم میں بلاعذر  تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لئے    کہ ترکہ کا گھر تمام ورثاء کی مشترکہ ملکیت ہوجاتاہے،لہذا اگر بھائی، بہنوں کو ان کے حصہ کی رقم موجودہ مارکیٹ  ویلیو    کے حساب سے ادا کرسکتے ہیں ،یا بہنیں اپنی رضا مندی سے اپنا حصہ بھائیوں کو کرایہ پر دینا چاہیں  تو شرعا بھائی وہ رقم  یا  کرایہ ادا کرکے گھر میں رہ سکتے ہیں ،لیکن اگر بھائی   ان کے حصے کی رقم یا کرایہ   ادا نہیں کرسکتے تو ترکہ کے گھر  کوفروخت کرکے بہنوں کو ان کے حصے کی رقم ادا کرنا ضروری ہے،بہنوں کو ان کے مطالبہ کے باوجود ان کے  اپنے حصے  سے ان کو محروم رکھنا گناہ ہے،باقی بھائیوں کی رہائش کا انتطام خود ان  ہی کے ذمہ ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے:

"قال علیہ الصلوۃ والسلام :’’ألا لاتظلموا ألا لایحل مال امرئٍ الا بطیب نفس منہ ‘‘،رواہ البیھقی فی شعب الایمان والدار قطنی."

(مشکوۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،الفصل الثانی ،ج1،ص255،ط؛قدیمی)

ترجمہ :"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگاہ رہو کسی پر ظلم مت کرو کسی انسان کا مال اس کی رضاوخوشی کے بغیر حلال نہیں ہے۔"

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 329) للمالك أن يؤجر حصته الشائعة من الدار المشتركة لشريكه إن كانت قابلة للقسمة ، أو لم تكن وليس له أن يؤجرها لغيره ولكن بعد المهايأة له أن يؤجر نوبته للغير."

(الکتاب الثانی فی الاجارات،ص83،ط؛نور محمد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(الباب الثالث في بيان ما يقسم و ما لا يقسم و ما يجوز من ذلك و ما لا يجوز) . دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى."

(کتاب القسمۃ،ج5،ص207،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں