ہمارے والد صاحب کے ترکہ میں ایک مکا ن ہے، اسے ہم نے بیچ کر تقسیم کرنے کے بجائے گھر کی قیمت کا اندازہ لگایا، اس گھر میں ایک بھائی اور3بہنیں رہتی ہیں اور والد صاحب کا انتقال 1991 میں ہوا، ان کے ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹا اور 10 بیٹیاں ہیں، پھر ایک بیٹی کا انتقال 2013 میں ہوا، اس کے ورثاء میں شوہر، والدہ، 9 بہنیں اور ایک بھائی ہے، پھر 2020 میں والدہ کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں ایک بیٹا اور 9 بیٹیاں ہیں، پھر 2024 میں ایک بیٹی کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں شوہر، ایک بھائی اور 8 بہنیں ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ گھر بھائی کی ملکیت میں چلا جائے، تو ہم تمام بہنوں نے اپنا حصہ معاف کردیا (جو کہ گھر میں ہمارا حصہ بن رہا تھا)آیا اس طرح کرنا درست ہے؟
بھائی نے تمام بہنوں کو پچاس ہزار روپے دیے میراث کے حصہ کی مد میں اور کہا کہ باقی معاف اور اس پر بھی ہم سب راضی ہیں، اگرچہ ہم نے پہلے ہی بھائی کو معاف کردیا ہے، اس طرح کرنا درست ہے؟اگر نہیں تو اس ترکہ کے گھر کی ملکیت بھائی کی کیسے ہوگی؟
جامعہ کے دار الإفتاء میں میں نے معلوم کیا تھا تو مفتی صاحب نے کہا کہ میراث اس طرح معاف نہیں ہوتی، ادھار معاف ہوجاتا ہے، تو بہنیں اپنا حصہ بھائی کو ادھار کردیں اور بھائی کچھ رقم ادا کردے، پھر معاف کرنا درست ہوگا، اس کی وضاحت فرمادیں۔
میری ایک بہن کا 2024 میں انتقال ہوچکا ہے، انہوں نے بھی اسی طرح زبانی معاف کیا تھا، کیوں کہ ترکہ کا مال کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا تھا تو ان کے حق میں شرعی کیا حکم دائر ہوگا؟ میری اس بہن سے ان کی چاہت پوچھی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنا حصہ جو میراث میں ملے گامسجد میں دینا چاہتی ہوں، ان کی یہ بات وصیت میں شمار ہوگی؟ اور اگر معاف کرنا شرعا درست نہیں تھا تو مسئلہ کا حل بتائیں اور اگر اس مرحوم بہن کے حصہ میں بھی کچھ آئے گا تو اس کا کیا کرنا ہوگا؟
واضح رہے کہ میراث کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنا حصہ معاف کرنے سے اس کا حصہ معاف نہیں ہوتا، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے ورثاء کے حصے مقرر کیے ہیں اورمال وراثت میں ہر وارث کا حق ہے ،لیکن اگر کوئی وارث اپنے شرعی مقررہ حصےکو جانتے ہوئے اس کےعوض کچھ مال پر صلح کرنا چاہے،جب کہ بقیہ تمام ورثاء اس پر راضی ہوں تو ایسا کرنا شریعت کی رو سے بالکل جائز ہے ۔لہٰذا صورت مسئولہ میں جب بیٹیوں نے جو اپنا اپنا حصہ معاف کیاتھا تو اس سے کسی کا حصہ معاف نہیں ہوااور بعد میں جب انہوں نے اپنی دلی رضامندی سے اپنے والد کے ترکہ سے اپنے شرعی مقررہ حصہ کے بجائے کچھ رقم لے کر باقی سے دست دستبردار ہوگئیں تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ والد کے علاوہ دیگر مرحومین(والدہ اور دو بیٹیوں) کے ترکہ میں سے ان کو حصہ ملے گا۔نیز جو مرحومہ بیٹی اپنے حصے سے دست بردار نہیں ہوئیں تھیں، وہ میراث کی حق دار تھیں اور ان کا حصہ ان کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں والد مرحوم کے مکان کوترکہ میں تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے اس کو ادا کرنے کے بعد، اگرمرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو اس کو بقیہ مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنےکے بعد،باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 43560حصوں میں تقسیم کرکے22386حصے بیٹے کو،1953حصے ہر زندہ بیٹی کو، پہلی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو 4620 حصے اور دوسری مرحومہ بیٹی کے شوہر کو930 حصے ملیں گے۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
میت: والد، مسئلہ:96/8/تخارج 43560/2178/33
بیوہ | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||||
12 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 | 7 |
792 | 924 | تخارج | فوت شدہ | ||||||||
فوت شدہ | 18480 | ۔ | ۔ |
میت:بیٹی، مسئلہ:66/6۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:7
شوہر | والدہ | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن |
3 | 1 | 2 | |||||||||
33 | 11 | 4 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 |
231 | 77 | 28 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 | 14 |
4620 | فوت شدہ | 560 | 280 | 280 | 280 | 280 | 280 | 280 | 280 | 280 | فوت شدہ |
والدہ:میت، مسئلہ:11(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:869(79)
بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
158 | 79 | 79 | 79 | 79 | 79 | 79 | 79 | 79 | 79 |
3160 | 1580 | 1580 | 1580 | 1580 | 1580 | 1580 | 1580 | 1580 | فوت شدہ |
میت: بیٹی، مسئلہ:20/2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:93
شوہر | بھائی | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن | بہن |
1 | 1 | ||||||||
10 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 | 1 |
930 | 186 | 93 | 93 | 93 | 93 | 93 | 93 | 93 | 93 |
فی صد کے حساب سے 51.39 فی صد بیٹے کو، 4.48 فی صد ہر زندہ بیٹی کو، 10.60 فی صدپہلی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو اور2.13 فی صد دوسری مرحومہ بیٹی کے شوہر کو ملے گا۔
نیز یہ الفاظ" میں اپنا حصہ جو میراث میں ملے گامسجد میں دینا چاہتی ہوں" وصیت کے الفاظ نہیں ہیں، لہٰذا یہ وصیت شمار نہیں ہوگی۔
باقی جامعہ سے جو آپ نے معلوم کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ سب سے پہلے بھائی ہر بہن کا شرعی حصہ اسے دے دیں، پھر ہر بہن اپنے بھائی کو بطورِقرض کے دے، پھر اگر بہنیں اپنا قرض معاف کرنا چاہیں تو معاف کردیں، کیوں کہ قرض معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے۔
تکملہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"الارث جبري لا يسقط بالاسقاط".
(كتاب الدعوى، باب التحالف، ج:8، ص:116، ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا".
(كتاب الوصايا، ج:6، ص:648، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102641
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن