بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جمادى الاخرى 1446ھ 14 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم/ تخارج


سوال

ہمارے والد صاحب کے ترکہ میں ایک مکا ن ہے، اسے ہم نے بیچ کر تقسیم کرنے کے بجائے گھر کی قیمت کا اندازہ لگایا، اس گھر میں ایک بھائی اور3بہنیں رہتی ہیں اور والد صاحب کا انتقال 1991 میں ہوا، ان کے ورثاء میں بیوہ، ایک بیٹا اور 10 بیٹیاں ہیں، پھر ایک بیٹی کا انتقال 2013 میں ہوا، اس کے ورثاء میں شوہر، والدہ، 9 بہنیں اور ایک بھائی ہے، پھر 2020 میں والدہ کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں ایک بیٹا اور 9 بیٹیاں ہیں، پھر 2024 میں ایک بیٹی کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں شوہر، ایک بھائی اور 8 بہنیں ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ گھر بھائی کی ملکیت میں چلا جائے، تو ہم تمام بہنوں نے اپنا حصہ معاف کردیا (جو کہ گھر میں ہمارا حصہ بن رہا تھا)آیا  اس طرح کرنا درست ہے؟

بھائی نے تمام بہنوں کو پچاس ہزار روپے دیے میراث کے حصہ کی مد میں اور کہا کہ باقی معاف اور اس پر بھی  ہم سب راضی ہیں، اگرچہ ہم نے پہلے ہی بھائی کو معاف کردیا ہے، اس طرح کرنا درست ہے؟اگر نہیں تو اس ترکہ کے گھر کی ملکیت بھائی کی کیسے ہوگی؟

جامعہ کے دار الإفتاء میں میں نے معلوم کیا تھا  تو مفتی صاحب نے کہا کہ میراث اس طرح معاف نہیں ہوتی، ادھار معاف ہوجاتا ہے، تو بہنیں اپنا حصہ بھائی کو ادھار کردیں اور بھائی کچھ رقم ادا کردے،  پھر معاف کرنا درست ہوگا، اس کی وضاحت فرمادیں۔

میری ایک بہن کا 2024 میں انتقال ہوچکا ہے، انہوں نے بھی اسی طرح زبانی معاف کیا تھا، کیوں کہ ترکہ کا مال کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا تھا تو ان کے حق میں شرعی کیا حکم دائر ہوگا؟ میری اس بہن سے ان کی چاہت پوچھی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میں اپنا حصہ جو میراث میں ملے گامسجد میں دینا چاہتی ہوں، ان کی یہ بات وصیت میں شمار ہوگی؟ اور اگر معاف کرنا شرعا درست نہیں تھا تو مسئلہ کا حل بتائیں اور اگر اس مرحوم بہن کے حصہ میں بھی کچھ آئے گا تو اس کا کیا کرنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ میراث  کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنا حصہ معاف کرنے سے اس کا حصہ معاف نہیں ہوتا، کیوں کہ  شریعتِ مطہرہ نے ورثاء کے  حصے  مقرر کیے ہیں اورمال  وراثت میں   ہر وارث کا حق ہے ،لیکن اگر کوئی  وارث اپنے شرعی مقررہ حصےکو جانتے ہوئے اس  کےعوض کچھ مال  پر صلح کرنا چاہے،جب کہ بقیہ تمام ورثاء اس پر راضی ہوں تو ایسا کرنا شریعت کی  رو سے  بالکل جائز ہے ۔لہٰذا صورت مسئولہ میں جب  بیٹیوں   نے جو اپنا اپنا حصہ معاف کیاتھا تو اس سے کسی کا حصہ معاف نہیں ہوااور بعد میں جب انہوں  نے اپنی دلی رضامندی سے اپنے والد کے ترکہ   سے  اپنے شرعی مقررہ حصہ کے بجائے کچھ رقم لے کر باقی سے دست دستبردار ہوگئیں تو ایسا کرنا جائز ہے، البتہ والد کے علاوہ دیگر مرحومین(والدہ اور دو بیٹیوں) کے ترکہ میں سے ان کو حصہ ملے گا۔نیز جو مرحومہ بیٹی اپنے حصے سے دست بردار نہیں ہوئیں تھیں، وہ میراث کی حق دار تھیں اور ان کا حصہ ان کے ورثاء میں  تقسیم ہوگا۔

صورتِ مسئولہ میں والد مرحوم کے  مکان کوترکہ میں تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے  مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن دفن کے اخراجات  نکالنے  کے بعد ،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے اس کو ادا کرنے کے بعد، اگرمرحومہ  نے کوئی جائز وصیت کی ہو  اس کو  بقیہ مال کے ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنےکے بعد،باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 43560حصوں میں تقسیم کرکے22386حصے  بیٹے کو،1953حصے ہر زندہ بیٹی کو،  پہلی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو 4620 حصے اور دوسری مرحومہ بیٹی کے شوہر کو930 حصے ملیں گے۔

تقسیم کی صورت یہ ہے:

میت: والد، مسئلہ:96/8/تخارج 43560/2178/33

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
12147777777777
792924تخارجفوت شدہ
فوت شدہ18480۔۔

میت:بیٹی، مسئلہ:66/6۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:7

شوہروالدہبھائیبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہن
312
33114222222222
2317728141414141414141414
4620فوت شدہ560280280280280280280280280فوت شدہ

والدہ:میت، مسئلہ:11(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:869(79)

بیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2111111111
158797979797979797979
316015801580158015801580158015801580فوت شدہ

میت: بیٹی، مسئلہ:20/2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ما فی الید:93

شوہربھائیبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہنبہن
11
10211111111
9301869393939393939393

فی صد کے حساب سے 51.39 فی صد بیٹے کو، 4.48 فی صد ہر زندہ بیٹی کو، 10.60 فی صدپہلی مرحومہ بیٹی کے شوہر کو اور2.13 فی صد دوسری مرحومہ بیٹی  کے شوہر کو ملے گا۔

نیز یہ الفاظ" میں اپنا حصہ جو میراث میں ملے گامسجد میں دینا چاہتی ہوں" وصیت کے  الفاظ نہیں ہیں، لہٰذا یہ وصیت شمار نہیں ہوگی۔

باقی جامعہ سے جو آپ نے معلوم کیا اس کی وضاحت یہ ہے کہ سب سے پہلے بھائی ہر بہن کا شرعی حصہ اسے دے دیں، پھر ہر بہن اپنے بھائی کو بطورِقرض کے دے، پھر اگر بہنیں اپنا قرض معاف کرنا چاہیں تو معاف کردیں، کیوں کہ قرض معاف کرنے سے معاف ہوجاتا ہے۔

تکملہ حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"الارث ‌جبري ‌لا ‌يسقط بالاسقاط".

(كتاب الدعوى، باب التحالف، ج:8، ص:116، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(هي ‌تمليك مضاف إلى ما ‌بعد ‌الموت) عينا كان أو دينا".

(كتاب الوصايا، ج:6، ص:648، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602102641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں