بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم پہلے اگر کسی وارث کا انتقال ہوجائے تو اس وارث کے ورثاء حصہ دار ہوں گے


سوال

 ہم ٹوٹل 4 بھائی اور 2 بہنیں ہیں۔ ہمارے والد محترم اور والدہ محترمہ کافی عرصہ پہلے وفات ہوچکے ہیں۔ ہمارے والدین ہمارے لیے 2 کنال زمین وراثت میں چھوڑ گئے ہیں۔ دونوں بہنیں شادی شدہ تھیں اور ان دونوں بہنوں کی بھی وفات ہو چکی ہے۔ بڑی بہن کے چونکہ بچے ہیں اس لیے ہماری وراثت میں سے بڑی بہن کا حصہ انکے بچوں کو چلا جائے گا۔ ہماری دوسری چھوٹی بہن کی کوئی اولاد نہیں تھی اور اولاد کے بغیر اس دنیا سے رخصت ہوگئی ان کی رخصت کے کچھ عرصہ بعد ان کے شوہر بھی وفات ہو گئے۔ اب ہماری اس چھوٹی  بہن کے شوہر کا بھائی ہماری بہن کی وراثت میں سے حصے کا دعوے دار ہے، اور ہماری اپنی وراثت میں سے حصہ مانگ رہا ہے۔

سوال نمبر 1۔ کیا میری اس چھوٹی بہن کے شوہر کے  بھائی کا ہماری وراثت میں سے کوئی حصہ بنتا ہے؟

سوال نمبر 2۔ اگر کوئی حصہ بنتا ہے تو کس حساب سے بنتا ہے؟ 

جواب

اگر سائل کی چھوٹی بہن کا انتقال سائل کے والدین کے بعد ہوا ہے اور سائل کی چھوٹی بہن کے انتقال کے وقت تک سائل کے والدین  کا ترکہ تقسیم نہیں ہوا تھا تو شرعًا مذکورہ بہن کے انتقال کےبعد اس کا شوہر اپنی مرحومہ بیوی کا وارث ہونے کی حیثیت سے    سائل کے والدین کے ترکہ سے حصہ دار ٹہرا،اس کے بعد بھی جب ترکہ تقسیم نہیں ہوا اور مذکورہ بہن کے شوہر کا انتقال ہوگیا اور اس کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی تو شوہر کا بھائی  شرعا شوہر کا وارث ہونے کی حیثیت سےسائل کے والدین کی میراث  میں سے حصے دار ہے۔

البتہ سائل کی چھوٹی بہن کے دیور کا شرعی اعتبار سے کتناحصہ بنتاہے؟اس کے لیے سوال میں موجود تفصیلات ناقص ہیں ،اگر سوال میں تمام ورثاءکی مکمل تفصیلات (۱۔ہر ایک وارث کا سن وفات۲۔انتقال کے وقت اس کے کون کون سے ورثاء حیات تھے۳۔ہر ایک کے شرعی  ورثاء مثلًا،والدین،میاں بیوی،اولاد(بیٹا بیٹی)،بھائی بہن میں سے جو حیات ہوں ان کی تفصیلات) لکھ کر دوبارہ سوال ارسال بھیجا جائے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"‌‌فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية)

هي مفاعلة من النسخ بمعنى النقل والتحويل والمراد بها هنا أن ينتقل نصيب بعض الورثة بموته قبل القسمة إلى من يرث منه."

(کتاب الفرائض،ج۶،ص۸۰۱،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں