بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم میں موجودہ قیمت کا اعتبار ہے


سوال

1982 میں تین بھائیوں نے 10000 روپے فی حصہ کے حساب سے 30000 روپے کا کاروبار شروع کیا۔جس کا کوئی تحریری اقرار نامہ یا ثبوت نہیں تھا۔ بس پیار ، محبت اور اتفاق میں کام شروع کیا گیا۔ 1991 میں ایک بھائی کی وفات ہوگئی۔ ان کا حصہ ان کے ورثاء وصول کرتے رہے۔ 1992 میں ایک بھائی کے بیٹے نے کاروبار میں اپنی خدمت شروع کی___1992 سے 1998 تک بیٹے کی خدمت کی اجرت اس کے والد کے پاس ہوتی تھی جو مذکورہ کاروبار میں ⅓ حصہ کے شریک تھے۔ 1998 میں کاروباری اور قانونی  ذمہ داریاں ہونے کی وجہ سے بیٹے نے کاروبار میں اپنا ذاتی حصہ دار ہونے کا اظہار کیا۔جس پر فوت شدہ بھائی کے ورثاء سے ⅓ حصہ والد نے خرید کر بیٹے کے نام کر دیا۔ اس حصہ کی رقم بعد میں والد نے اپنے بیٹے سے وصول کر لی۔ 1999 میں تیسرے حصہ دار بھائی انتقال کر گئے جن کا حصہ ان کے ورثاء وصول کرتے رہے۔ 2008 تک کاروبار کے منافع کی رقم برابر تقسیم ہوتی رہی۔ 2009 میں بیمار ہونے کی وجہ سے والد نے اپنے بیٹے سے اپنا ذاتی حصہ طلب کیا کہ میں نے اپنا تمام حصہ مسجد میں دینا ہے۔ جس پر بیٹے نے جواب دیا کہ آپ نے اپنے حصہ کی رقم مجھے نہیں بلکہ اپنے بھائیوں کو دی تھی۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ کیونکہ اس کا کوئی تحریری و قانونی ثبوت ان کے پاس نہ تھا۔ اس وقت تمام کاروباری اور قانونی زمہ داریاں اس بیٹے کے نام پر تھیں۔ 2009 میں والد صاحب کی وفات کے بعد یہ حصہ کسی بھی وارث کی رضامندی سے کاروبار میں شامل نہیں تھا۔ بلکہ وقتاً فوقتاً دبی زبان میں طلب کرتے تھے۔ لیکن کیونکہ کوئی تحریری ثبوت نہ تھا اس لیے قانوناً رقم وصول نہ کر سکتے تھے۔ 2022 میں اب بیٹا باقی ورثاء کو والد صاحب کا حصہ دینے پر رضامند ہے۔ احکامِ شرعیہ کی روشنی میں جواب صادر فرمائیں کہ والد صاحب کی وفات کے وقت کی رقم ورثاء میں تقسیم ہوگی یا موجودہ رقم؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  جب سائل کے والد کا ترکہ  وفات کے وقت تقسیم نہیں ہوا تو تمام ورثاءمرحوم کے کاروبار میں اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حصہ دار ہوئے؛  لہذا اگر اب کاروبار میں منافع ہونے کی بنیاد پر  ترکہ کی  رقم میں اضافہ ہوا ہےتو اس کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع میں بھی تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے حق دار ہیں،مرحوم کا ترکہ  موجودہ رقم کے اعتبار سے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوگا ۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1073) - (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88) .

الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."

(الکتاب العاشر: الشرکات،الباب الأول في بيان شركة الملك،الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج3،ص26،ط؛دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100113

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں