بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کے کاروبار کی بڑھوتری میں بہن کا حصہ


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، والدہ سے پہلے ہی علیحدگی ہوچکی تھی، دادا نے میرا اور میری بہن کا حصہ مجھے دیا، جو میں نے اپنی بہن کو اس وقت نہیں دیا ، ان حصوں کا کاروبار  چل رہا تھا،  وہ حصے  والد کے کاروبار میں تھے، اس میں پھر نقصان بھی ہوا، لیکن اب اچھا خاصہ نفع بھی ہورہا ہے  تو کیا میں اس کاروبار میں سے  اپنی بہن کو حصہ موجودہ قیمت کے حساب سے دوں  گا یا اس وقت کی قیمت کے اعتبار سے ؟  

وضاحت: والدہ کو  و الد صاحب نے طلاق دے دی تھی، اس کو بھی تیس پینتس سال ہوگئے ہیں، والدہ کی پھر کسی اور جگہ شادی بھی ہوگئی تھی،   نیز مرحوم والد ہی کا کاروبار چل رہا تھا، اس میں سے بہن کا حصہ الگ نہیں کیا تھا، بہن کا حصہ بھی اس کاروبار میں لگا ہوا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے کل ترکہ  میں اس کے  تمام شرعی ورثاء باہم اپنے اپنے حصص کے مطابق شریک ہوجاتے ہیں  اور وہ تمام ترکہ ان ورثاء میں مشترک ہوجاتا ہے ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کے مرحوم والد کے کاروبار میں سے بہن کا حصہ الگ کرکے اسے نہیں دیا تو والد کے کاروبار میں بہن کا حصہ بدستور باقی ہے، لہذا والد کے انتقال کے بعد اس کاروبار میں جتنا اضافہ ہوا  ہے اس نفع میں بھی بہن اپنے شرعی حصہ کے تناسب سے شریک  ہے؛ لہذا  بہن کو  مذکورہ کاروبار میں سے اس کا حصہ موجودہ قیمت کے  تناسب سے دینا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] يقع كثيراً في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارةً يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافاّ لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك، كما حررته في تنقيح الحامدية.

ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحداً ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركاً بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصواباً، كما أفتى به في الخيرية".

 (رد المحتار،کتاب الشرکة4/ 307  ط: سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں