ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو وہ اپنا ایک ایسا کاروبار چھوڑ جاتا ہے جو کہ اس کا ایک بیٹا سنبھال رہا ہوتا ہے اور وہ کاروبار ایسا ہوتا ہے کہ جس کاروبار میں اگر ایک لاکھ روپے کا مال موجود ہو تو اس مال سے ایک ہفتہ کا نفع چار لاکھ روپے ہوتا ہے، جب وراثت تقسیم کی بات آتی ہے تو اگر مرحوم کے ورثاء میں چار بیٹے ہیں اور مرحوم کاروبار میں ایک لاکھ روپے کا مال چھوڑ گئے ہیں تو مقامی علماءکرام سے پوچھ کر کاروبار چلانے والا مرحوم کا بیٹا اپنے بھائیوں کو فی بھائی 25 ہزار کا مال دے کر کہتا ہے کہ تمہارا کاروبار میں حصہ ختم ،کیوں کہ والد بس یہ ہی مال چھوڑ گئے تھے، جب کہ وہ کاروبار چلانے والے بھائی کے پاس جو 25 ہزار کا مال بنتا ہے وہ اس مال سے اگلے ہی ہفتے ایک لاکھ روپے نفع کما لیتا ہے ایسے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
صورت ِ مسئولہ میں مرحوم والد نے ترکہ میں جو کاروبار چھوڑا ہے اور اس کے بعد میراث تقسیم ہونے سے پہلے ایک بیٹا اس کاروبار کو چلا رہا ہے تو والد مرحوم کے کاروباراور اس سے حاصل ہونے منافع تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوں گے ،ورثاء کو صرف کاروبار کی مالیت سے حصہ دینا شرعاً درست نہیں ،بلکہ اس کا روبار سے جو نفع ہورہا ہے اس میں بھی دیگر ورثاء اپنے حصہ کے بقدر شریک ہوں گے،باقی جس دن ورثاء کی رضامندی سے کاروبار تقسیم ہوجائے اس سے اگلے ہفتہ کاروبار چلانے والا بھائی جتنا بھی کمائے وہ اسی کی ملکیت ہوگا ، اس میں شرعاً دیگر بھائیوں کا حصہ نہیں ہوگا ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ."
(کتاب الشرکۃ،فصل فی الشرکۃ الفاسدۃ،ج:4،ص:325،سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102772
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن