بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم اور ایک بھائی کا بیوہ کو وراثت سے محروم کرنا


سوال

ایک عورت کے شوہر کاانتقال ہوا ان کے ورثاء میں بیوہ اور 5 بھائی اور 5 بہنیں  اور والدہ ہیں۔ آیا  شوہر کے ترکہ میں سے بیوہ کا حصہ ہوگا؟ شوہر کے والد کا  ان سے پہلے انتقال ہوچکا ہے۔ شوہر کے ایک بھائی  بیوہ کو میراث سے محروم کر رہے ہیں اور دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ شریعت کی رو سے بیوہ کا حصہ بنتا ہے یا نہیں اگر ہے تو کتنا ہے؟  

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شوہرکے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد باقی  جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے180 حصے بنا کر مرحوم کی بیوہ کو 45 حصے، اس کی والدہ کو 30 حصے، ہر بھائی کو 14 حصے اور ہر بہن کو 7 حصے ملیں گے۔ 

صورت تقسیم یہ ہے:

میت۔12/ 180

بیوہوالدہبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبہنبہنبہنبہنبہن  
327
4530141414141477777

یعنی 100  روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 25 روپے، اس کی والدہ کو 16.66  روپے، ہر بھائی کو 7.77  روپے اور ہر بہن کو 3.88   روپےملیں گے۔ 

مذکورہ بھائی کا بہن کو محروم کرنا اور دھمکیاں دینا شرعاً ناجائز ہے مذکورہ بھائی پر لازم ہے کہ بیوہ کا جو بھی حصہ بنتا ہے وہ اس کو دیدیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور وہاں دینا آسان نہیں ہوگا اور اس کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا حدیث شریف میں ہے کسی کی ایک بالشت زمین نا حق لینے سے قیامت کے دن سات طبقے زمین اس کے گلے میں طوق بنا دیئے جائیں گے۔

صحيح مسلم ميں ہے:

عن سعيد بن زيد، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «‌من ‌أخذ ‌شبرا من الأرض ظلما، فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»

( باب تحریم الظلم وغصب الارض وغیرھا، ص/33، ج/2، ط/قدیمی)

فقط واللہ اعلم   


فتوی نمبر : 144303100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں