والد کا انتقال ہوا، ان کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، جبکہ بیوہ حیات نہیں تھیں۔ بیٹوں میں سے بڑے بیٹے نے والد کے ترکے میں سے بچی ہوئی زمین 10 لاکھ میں فروخت کی ،اور اس رقم سے دوسری جگہ زمین خریدی، جسے بیٹوں نے صرف آپس میں تقسیم کر لیا اور بیٹیوں کو محروم کر دیا۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر بیٹے ہم بیٹیوں کو ہمارا حصہ دینا چاہیں تو 10 لاکھ روپے کے حساب سے دیں گے یا موجودہ زمین کی قیمت لگا کر حصہ دیا جائے گا؟
واضح رہے کہ اس خرید وفروخت میں بیٹیوں کی اجازت شامل نہیں تھی،اور دوسری زمین ان ہی پیسوں یعنی 10 لاکھ روپے سے لی گئی تھی، اضافی رقم کسی نے شامل نہیں کی۔
واضح رہے کہ ترکہ جب تک تقسیم نہ ہوجائے اس وقت تک تمام ورثاء اس میں مشترک ہوتے ہیں، کسی وارث کے لیے دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ترکہ میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، اور اگر کوئی وارث ترکہ کو بغیر اجازت کے بیچ دیتا ہے تو وہ اس کا ضامن ہوتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں والد مرحوم کے ترکہ کی زمین کو بیٹیوں کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا جائز نہیں تھا،تاہم جب وہ زمین بیٹوں نے دس لاکھ روپے میں فروخت کرکے ان پیسوں سے دوسری زمین خریدی ہے تو اب یہ دوسری زمین بھی تمام ورثاء میں مشترکہ شمار ہوگی ،اور موجودہ زمین تمام ورثاء یعنی مرحوم کے بیٹوں اور بیٹیوں میں ان کے شرعی حصوں کے موافق تقسیم ہوگی، اور اگر بیٹے ،بیٹیوں کو ان کے حصہ کے بدلہ میں رقم دینا چاہیں تو بیٹیوں کو اس موجودہ زمین کی موجودہ قیمت کے حساب سے ان کا حصہ دیا جائے گا۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(المادة 96) :لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار...
كذلك ليس لأحد الشركاء أن يركب الحيوان المشترك أو أن يحمله متاعا بدون إذن الشريك الآخر فإذا ركبه أو حمله وتلف يكون ضامنا حصة الشريك."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج: 1، ص: 96، ط: دار الجيل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100637
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن