بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو الحجة 1446ھ 06 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم اور اس میں وصیت کے دعوی کا حکم


سوال

دو سال قبل میری بہن کا انتقال ہوا ،ورثاء میں شوہر ،دو بھائی ، دو بہنیں اور  ایک بچی جوبہن نے  گود لی تھی ۔انتقال کے وقت  اس  کا سونا بینک  میں محفوظ تھا،اس میں کچھ  وہ سونا تھا جو  شوہر نے شادی کے بعداسےگفٹ کیا تھا، اور کچھ وہ سوناتھا، جو ہم نے شادی کے وقت  ان کو دیا تھا (ایک چین اور ایک  انگوٹھی تھی )،ہم نے وہ بینک سے نکلوا کر شوہر کا سونا شوہر کو دے دیا ،اور جو ہم نے دیا تھا وہ ہم نے اپنے پاس رکھ لیا ،اس کے علاوہ جہیز کا سامان شوہر کے گھر میں ہی ہے ،اس میں سے ہم نے کچھ نہیں لیا ،میری بہن کا شوہر یہ کہہ رہا ہے کہ آپ کی بہن نے کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد یہ سونامیری منہ بولی بیٹی کا ہوگا ، اس کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے ،اب وراثت کا کیا حکم ہوگا ؟ اور اس وصیت کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں   مرحومہ کو جو سونا  شوہر نےگفٹ  دیا تھا ،اور جو سونامیکہ سےدیاگیا تھا او ر جہیز کا سامان سب مرحومہ کا ترکہ ہے ،جسے مرحومہ کے تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ  میراث کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے، شوہر کا سونا شوہر کو دینا اور میکے والوں کا اپنا دیا ہوا سونا خود رکھ لینا غیر شرعی تقسیم ہے۔

شرعی تقسیم یوں ہو گی کہ سب سے پہلے مرحومہ کے حقوق ِمتقدمہ یعنی  اگرمرحومہ پر کوئی قرضہ ہو اس کوکل مال سے  ادا کرنے کے بعد، اگرمرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقی کل ترکہ  منقولہ وغیرمنقولہ کو12حصوں میں تقسیم کرکے 6حصے شوہر کو، دوحصے ہر ایک بھائی کو اور ایک حصہ ہرایک بہن کو ملے گا،گود لی ہوئی بیٹی شرعاًوارث نہیں ہے ،البتہ اگر تمام ورثاءباہمی رضامندی سے مرحومہ کے ترکہ میں سے اسے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

تقسیم کی صورت یہ ہے:

میت:12/2

شوہربھائیبھائیبہنبہن
11
62211

یعنی فیصد کے اعتبا ر سے 50 فیصد شوہر کو ،16.66فیصد ہر ایک بھائی کو ،اور 8.33فیصد ہرایک بہن کو ملے گا۔

باقی  مرحومہ کےشوہر  نے مرحومہ کی جانب سے  جس وصیت کا دعوی کیا ہے،اگر اس کو باقی ورثاء تسلیم نہ کریں تو پھر  اسے شرعی گواہوں سے ثابت کردے تب تو یہ وصیت معتبر ہوگی ،اور وصیت کی شرائط کے مطابق پوری کی جائے گی ،اور اگر شوہر ثابت نہ کرسکے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

" وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ."﴿النساء: ٨﴾

ترجمہ:"اور جب تقسیم (ترکہ) کے وقت رشتہ دار، یتیم اور محتاج لوگ آ جائیں تو انہیں بھی اس (مال) میں سے کچھ دے دو اور ان سے بھلی بات کہو۔"

تفسير القرطبي  الجامع لأحكام القرآن میں ہے:

"وإذا حضر القسمة أولوا القربى واليتامى والمساكين فارزقوهم منه وقولوا لهم قولا معروفا.

فيه أربع مسائل: الأولى- بين الله تعالى أن من لم يستحق شيئا إرثا وحضر القسمة، وكان من الأقارب أو اليتامى والفقراء الذين لا يرثون أن يكرموا ولا يحرموا، إن كان المال كثيرا، والاعتذار إليهم إن كان عقارا أو قليلا لا يقبل الرضخ. وإن كان عطاء من القليل ففيه أجر عظيم،۔۔۔۔۔قال ابن عباس: أمر الله المؤمنين عند قسمة مواريثهم أن يصلوا أرحامهم، ويتاماهم ومساكينهم من الوصية، فإن لم تكن وصية وصل لهم من الميراث. قال النحاس: فهذا أحسن ما قيل في الآية، أن يكون على الندب والترغيب في فعل الخير، والشكر لله عز وجل. وقالت طائفة: هذا الرضخ واجب على جهة الفرض، تعطي الورثة لهذه الأصناف ما طابت به نفوسهم، كالماعون والثوب الخلق وما خف. حكى هذا القول ابن عطية والقشيري. والصحيح أن هذا على الندب، لأنه لو كان فرضا لكان استحقاقا في التركة ومشاركة في الميراث، لأحد الجهتين معلوم وللآخر مجهول."

(سورة النساء : آية ٨،ج:5،ص:48،ط:دار الكتب المصرية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما حجة المدعي والمدعى عليه فالبينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه» جعل - عليه الصلاة والسلام - البينة حجة المدعي واليمين حجة المدعى عليه والمعقول كذلك لأن المدعي يدعي أمرا خفيا فيحتاج إلى إظهاره وللبينة قوة الإظهار لأنها كلام من ليس بخصم فجعلت حجة المدعي واليمين."

( كتاب الدعوي، فصل في حجة المدعي والمدعى عليه، ٦ / ٢٢٥، ط: دار الكتب العلمية)

فتح القدیر میں ہے:

"وكذا القصاص وما سوى ذلك من المعاملات: أي وكل ما سوى ذلك يقبل فيه رجلان أو رجل وامرأتان سواء كان الحق مالا أو لا كالنكاح والطلاق والوكالة والوصية ونحو ذلك كالعتق والرجعة والنسب."

(كتاب الشهادات، ج:7، ص:370، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610101735

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں