1.میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں بیوہ ،ایک بیٹا ، اور ایک بیٹی ہیں،والد صاحب کی جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟
2.والد صاحب کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے، ان کی کچھ نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں،اس کا فدیہ وغیرہ کیا ہے؟ اور کیسے ادا کریں؟ واضح رہے کہ والد صاحب نے انتقال سے پہلے نمازوں کے فدیہ وغیرہ کے بارے میں کوئی وصیت وغیرہ نہیں کی،لیکن ہم ادا کرنا چاہتے ہیں۔
1.صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں سے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے تین حصےبیوہ کو،14 حصے بیٹے کو اور سات حصے بیٹی کو ملیں گے ۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
مرحوم: 24/8
بیوہ | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |
3 | 14 | 7 |
فيصد كے حساب سے 100 فيصد مىں سے بیوہ کو 12.5 فیصد ،بیٹے کو 58.33 فیصد،اور بیٹی کو 29.17فیصد ملیں گے۔
2. اگر مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یاکوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ ادا کردےتو امید ہے کہ مرحوم آخرت کی باز پرس سے بچ جائیں گے۔
ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور ایک نماز کا فدیہ بھی ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔
فدیہ اس شخص کودیاجاسکتا ہے جس کو زکوۃ دیناجائز ہے، یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ،صاحبِ نصاب نہ ہو سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اس کی ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت تک پہنچتی ہو۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).
(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه. والمتبادر من التقييد بالولي أنه لا يصح من مال الأجنبي. ونظيره ما قالوه فيما إذا أوصى بحجة الفرض فتبرع الوارث بالحج لا يجوز، وإن لم يوص فتبرع الوارث إما بالحج بنفسه أو بالإحجاج عنه رجلا يجزيه. وظاهره أنه لو تبرع غير الوارث لايجزيه، نعم وقع في شرح نور الإيضاح للشرنبلالي التعبير بالوصي أو الأجنبي فتأمل، وتمام ذلك في آخر رسالتنا المسماة شفاء العليل في بطلان الوصية بالختمات والتهاليل."
(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت، 72/2، ط: ايچ ايم سعيد )
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن) لم يوص و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله ويكون الثواب للولي اختيار.
(قوله إن شاء الله) قبل المشيئة لا ترجع للجواز بل للقبول كسائر العبادات وليس كذلك، فقد جزم محمد - رحمه الله - في فدية الشيخ الكبير وعلق بالمشيئة فيمن ألحق به كمن أفطر بعذر أو غيره حتى صار فانيا، وكذا من مات وعليه قضاء رمضان وقد أفطر بعذر إلا أنه فرط في القضاء وإنما علق لأن النص لم يرد بهذا كما قاله الأتقاني، وكذا علق في فدية الصلاة لذلك، قال في الفتح والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ."
(كتاب الصوم، فصل: في العوارض المبيحة لعدم الصوم،425/2 ط: ايچ ايم سعيد )
فتاوی شامی میں ہے:
"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)".
( كتاب الحج، باب الحج عن الغير، 597/2 ط: ايچ ايم سعيد )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102768
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن