بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم


سوال

ایک خاتون جن کی وفات تقریباً ایک ماہ پہلے ہوئی ہے، خاتون نے اپنی زندگی میں ہی تمام جائیداد تقسیم کر دی تھی،  25,30 ہزار نقدی اور کچھ زیورات جو خاتون نے پہنے ہوئے تھے جن کے بارے میں خاتون کا کہنا تھا کہ یہ میرےآخری وقت میں کام آئیں گے یعنی کفن دفن،قبر وغیرہ کے لیے،ان تمام معاملات کو نمٹانے کے بعد زیورات بچ گئے،ان کا کیا کیا جائے؟ شرعی طور پر اس کا کیا حکم ہے؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے اگر اپنی تمام جائیداد شرعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے باقاعدہ تقسیم کرکے اس پر سے اپنا قبضہ و مالکانہ تصرف ختم کرکے دوسرے شخص کے قبضہ و مالکانہ تصرف میں دے دی ہو، تو ایسی صورت میں مذکورہ جائیداد مرحومہ کے ترکہ میں شامل نہ ہوگی، البتہ اگر انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی جائے داد کی تقسیم عرفِ عام کے مطابق کی ہو کہ میری موت کے بعد فلاں کو جائیداد میں سے اتنا حصہ ملے گا اور فلاں کو اتنا، تو اس صورت میں ان کی موت کے بعد مذکورہ تمام جائے داد ان کے ترکہ میں شامل ہوگی اور ان کی تقسیم والی بات شرعًا  وصیت شمار ہوگی، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر انہوں نے اپنے شرعی وارثین کے علاوہ کو دینے کہا ہو تو اسے مرحومہ کہ کل ترکہ کے ایک تہائی میں سے دیا جائے گا، پس اگر ان کی وصیت ایک تہائی ترکہ سے زائد کی ہو تو ایسی صورت میں ان کی وصیت صرف ایک تہائی میں نافذ کی جائے گی ، اس سے زائد کی وصیت شرعًا نافذ العمل نہ ہوگی، الّا یہ کہ بالغ ورثاء بخوشی اسے نافذ کردیں تو یہ ان کا اختیار ہوگا۔ اور اگر انہوں نے اپنی موت کے بعد جائیداد  وارثوں میں سے کسی کو دینے کا کہا ہو تو چوں کہ یہ وصیت وارث کے بارے میں ہے، اس وجہ سے باقی تمام ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، پس اگر سب راضی ہوں تو نافذ کردی جائے گی، بصورتِ  دیگر ان کی وصیت باطل قرار پائے گی۔

بہر صورت  اگر مرحومہ شادی شدہ تھیں اور ان کی وفات کے وقت ان کے شوہر موجود تھے تو ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ان کے شوہر کے ذمے تھے، یہ اخراجات مرحومہ کے ترکے میں سے نہیں ادا کیے جائیں گے، اور اگر مرحومہ شادی شدہ نہیں تھیں یا ان کی وفات کے وقت شوہر موجود نہیں رہے تو مرحومہ کے کل ترکہ میں سے مرحومہ کی تجہیز و تکفین، قبر و دفن کے اخراجات ادا کرنے کے بعد باقی ماندہ کل ترکہ کو مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء کے درمیان حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا،  اگر سائل کو ہر ایک وارث کا حصہ معلوم کرنا مطلوب ہو تو ورثاء کی مکمل تفصیل یعنی شوہر، ماں ، باپ، اور اولاد کی تفصیل لکھ کر دوبارہ معلوم کر لیا جائے۔

الفتاوى الهندية (90/6):

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200966

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں