ہمارے پاس ایک دکان ہے،جسں کی کل مالیت 90لاکھ ہے، ہر ایک کے حصے میں کتنے پیسے آئیں گے، ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں ہیں اور ایک والدہ ۔
اگر یہ دکان والدِ مرحوم کی میراث ہے،اور والد کا مذکورہ ورثاء کے علاوہ اور کوئی وارث نہیں تو والد کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ اولاً والد مرحوم کے ترکہ سے حقوقِ متقدمہ ادا کیے جائیں گے،یعنی سب سے پہلے ترکہ کے مال سے والد کی تجہیز و تکفین کا خرچ نکالا جائے گا،پھر اگر مرحوم کے ذمے کچھ قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے گا،اس کے بعد مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہوتو اسے ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کیا جائےگا، اس کے بعد بقیہ ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے 2 حصے سائل کی والدہ کو ، اور2 ،2 حصے سائل اور اس کے ہر ایک بھائی کو اور ایک ،ایک حصہ سائل کی ہر ایک بہن کو ملے گا۔
صورت ِ تقسیم یہ ہے:
میت:(والد): 16/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||||
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی دکان کی مالیت 9000000(نوے لاکھ روپے) میں سے 1125000 (گیارہ لاکھ ، پچیس ہزار روپے) مرحوم والد کی بیوہ(سائل کی والدہ ) کو اورہر ایک بیٹے کو،اور 562500 (پانچ لاکھ باسٹھ ہزار، پانچ سو روپے) مرحوم والد کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144506100079
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن