بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم کا طریقہ


سوال

 والد صاحب نے  زندگی میں اپنا مکان دو کروڑ پچانوے لاکھ روپے میں  بیچ  دیا  اور ایک اور مکان جس کی مالیت ایک کروڑ اسی لاکھ روپے ہیں  کا سودا کیا  اور تیس لاکھ روپے  منی ٹوکن کے ادا بھی کیے،والد صاحب کا انتقال ہوا ہے والدہ  پہلے ہی انتقال کرچکی تھی  ،ورثاء میں ہم چار  بیٹے  اور ایک بیٹی  ہیں،والد صاحب نے دوسرے مکا ن کا سودا اپنے لیے اور اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے لیے کیا تھا ،جب کہ دو بیٹے پہلے سے الگ کرائے کے مکان میں  رہتے تھے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ جس طرح باقی ماندہ رقم میں وراثت جاری ہوگی  اس طرح اس ٹوکن منی (گھر کا جو رقم بیعانہ کے طور پر ادا کیا )کی رقم میں بھی وراثت ہوگی یا صرف ان دو بھایئوں اور ایک بہن کی کا حق ہے ؟کیوں کہ والد صاحب   یہ مکان ہمارے لیے خرید رہے تھے۔

وضاحت: والد صاحب نے اپنا مکان دو کروڑ پچانوے لاکھ میں  بیچ  دیا، تیس لاکھ والدصاحب نےزندگی میں وصول کیےتھے، اورباقی ماندہ رقم دوکروڑ پینسٹھ لاکھ  ابھی ہم ورثاء قریب میں وصو ل کریں گے، پوچھنایہ ہےکہ دوکروڑ پینسٹھ لاکھ میں تووراثت جاری ہوگی ،لیکن تیس لاکھ  میں وراثت میں جاری ہوگی یاوہ صرف ہم دوبھائی اورایک بہن کاحق بنتاہے؟ کیوں کہ والد صاحب نےاپنامکان فروخت کرنےکےبعدایک اور مکا ن کاسودا  اپنے لیے اورہم دوبھائی ایک بہن کےلیےکیاتھاجس میں یہ تیس لاکھ والدصاحب نے بطورٹوکن منی کےاداکیےتھے، اوربقیہ ادائیگی ہم دوبھائی اورایک بہن ابھی خودکریں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں والدمرحوم کااپنامکان بیچنےکےبعددوسرےمکان کےلینےکاسودابھی چونکہ والدمرحوم نےخودکیاتھا، اورٹوکن منی کےطورپرتیس لاکھ روپےبھی اداکیےتھے،اس لیے اب اگرورثاء اس سوداکو برقراررکھتےہیں توبقیہ رقم کی ادائیگی والدمرحوم کےترکہ سےکرکےتمام ورثاء اس مکان میں حق دارہوں گے، اوراگرورثاء اس دوسرےمکان کاسوداختم کرتےہیں توٹوکن منی کےتیس لاکھ روپےواپس لےکرتمام ورثاء پرتقسیم کیےجائیں گے، اورتمام ورثاء کا اس میں حق ہوگا جس طرح والدمرحوم کےبیچےہوئےمکان  کےباقی ماندہ رقم دوکروڑپینسٹھ لاکھ  روپےمیں تمام ورثاء کاحق ہے۔

والد کے ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ  سب سے پہلے مرحوم  کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم  کےذمہ اگر کوئی قرض ہو ،تو اسے ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد اگرمرحوم  نےکوئی جائز وصیت کی ہو،تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصے میں سےادا کرنے کے بعد، باقی ماندہ کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو" 9"حصوں میں تقسیم کر کےدوحصےمرحوم کےہربیٹےکواورایک حصہ مرحوم کی بیٹی کوملےگا۔صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:

میت (مرحوم والد):مسئلہ :9

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی
22221

فیصدکےاعتبارسے100فیصدمیں سے22.22فیصدمرحوم کےہربیٹےکواور11.11فیصدمرحوم کی بیٹی کوملیں گے۔

الدرالمختارمیں ہے:

"(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد."

(کتاب الفرائض، 6/760، ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"التركة لغة: ما يتركه الشخص ويبقيه، واصطلاحا عند الجمهور غير الحنفية: هي كل ما يخلفه الميت من الأموال والحقوق الثابتة مطلقا...وهي عند الحنفية: الأموال والحقوق المالية التي كان يملكها الميت. فتشمل الأموال المادية من عقارات ومنقولات وديون على الغير."

(‌‌ الأحوال الشخصية، الباب السادس ـ الميراث، ‌‌الفصل السادس: الحقوق المتعلقة بالتركة، 7725/10، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602101485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں