بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کے گھر میں تقسیم سے پہلے ورثاء کا رہنا


سوال

میرے چچا کی دو شادیاں تھیں۔ ایک بیوی سے اولاد ہے جو کہ بالغ ہے جبکہ دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے۔ دونوں بیویاں اکھٹی ایک گھر میں رہتی ہیں۔ چچا جی فوت ہو چکے ہیں۔ اب وہ بیوی جس  سے کوئی اولاد نہیں ہے ۔ کیا وہ اس گھر میں رہ سکتی ہے،  جہاں دوسری بیوی اور ان کے بچے رہ رہے ہیں یا نہیں؟ رہنمائی درکار ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مرحوم کے متروکہ گھر میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء حصص شرعیہ کے تناسب سے شریک ہیں، پس مذکورہ گھر کے آٹھویں حصہ پر مرحوم کی دونوں بیواؤں  کا شرعی حق ہے،  جب کہ بقیہ گھر میں مرحوم کے بیٹے اور بیٹیاں ایک اور آدھے کے تناسب سے شریک ہیں، پس جب تک مذکورہ گھر شرعی تقسیم کے مطابق تقسیم نہیں ہوتا، اس وقت تک مذکورہ گھر میں تمام شرعی وارث رہائش اختیار  کرسکتے ہیں، البتہ تقسیم کے بعد  اپنے حصے سے زائد میں رہائش اختیار کرنے کے  لیے بقیہ افراد کی اجازت ضروری ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(أو كان) في صورة الإرث العقار أو بعضه (مع الوارث الطفل أو الغائب أو) كان (شيء منه لا) يقسم للزوم القضاء على الطفل أو الغائب بلا خصم حاضر عنهما (وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.

(قوله: في صورة الإرث) وهي قوله ولو برهنا إلخ، وهذه محترز قوله: هناك وهو أي العقار معهما (قوله: أو بعضه) مكرر مع قول المتن أو شيء منه ح (قوله: مع الوارث الطفل أو الغائب) أو يد مودع الغائب أو يد أم الصغير والصغير غائب فلايقسم وإن كان الحاضر أمينًا بزازية وغيرها (قوله: للزوم القضاء) أي لئلايلزم القضاء عليهما بإخراج شيء مما في أيديهما بلا خصم حاضر منهما أي من جهتهما. والذي في الهداية وغيرها عنهما. هذا وذكر القهستاني أنه لايقسم إلا أن ينصب عنه خصمًا ويقيم البينة فإنه يقسم على ما روي عن الثاني انتهى وأقره في العزمية قلت: لكن في الهداية والتبيين ولا فرق في هذا بين إقامة البينة: أي على الإرث وعدمها هو الصحيح كما أطلق في الكتاب: أي في قوله لايقسم، وهو احتراز عن رواية المبسوط أنه يقسم إذا قامت البينة كفاية فتأمل (قوله: و قسم المال المشترك) أي الذي تجري فيه القسمة جبرًا بأن كان من جنس واحد كما مر و يأتي (قوله: و بطلب ذي الكثير) أي إن انتفع بحصته وأطلقه لعلمه من المقام، ومفهومه أنه لايقسم بطلب ذي القليل الذي لاينتفع إذا أبى المنتفع. و وجهه كما في الهداية أن الأول منتفع فاعتبر طلبه والثاني متعنت فلم يعتبر اهـ ولذا لايقسم القاضي بينهم إن تضرر الكل وإن طلبوا كما في النهاية، وحينئذ فيأمر القاضي بالمهايأة كما سيذكره الشارح."

(كتاب القسمة  ، ٦ / ٢٦٠،  ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں