بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ اور اس سے حاصل ہونے والے کرایہ کا حکم


سوال

 مجھے ترکہ کے حوالے سے مسئلہ پوچھنا ہے:ایک بیوہ، سات  بیٹیاں اور ایک بیٹا۔

 میرے والد صاحب کا انتقال 2011 میں ہوا تھا ، ہم سات  بہنیں اور ایک بھائی ہیں، اس وقت تک 5 بہنوں کی شادی ہو چکی تھی، غیر شادی شدہ میں ایک بہن کی عمر 19 اور دوسرے کی 17 سال جب کہ بھائی 23 سال کے تھے، ہمارے پاس اس وقت 1 گھر تھا، اسی میں رہتے تھے اور ایک پورشن کرائے پر دیا تھا،اس کے علاوہ ایک فلیٹ کی بکنگ ہوئی تھی، اس کی قسط ،ہماری پڑھائی اور گزر بسر ہماری والدہ کرائے کی آمدنی سے کرتی تھی۔

2019 میں فلیٹ تیار ہو گیا اور اس کا بھی کرایہ  آنے لگا،اسی آمدنی سے میری والدہ سب کچھ چلاتی تھی، اس عرصہ میں میری بہنیں ہمارے گھر رہنے بھی آتی تھیں، سب کے بچے بھی ہوئے، والدہ بہت سا  خرچہ ان کے لیے بھی کرتی تھی  انہیں پیسوں سے، اس کے علاوہ 1 اور زمین ہے جو ابھی تک بک نہیں سکی۔ ابو کی  تمام پراپرٹی کی تفصیل درجہ ذیل ہے:

1۔ زمین جو ابھی تک بک نہیں سکی۔ 2۔ ایک فلیٹ انتقال سے پہلے بک ہوا تھا ، تمام قسطیں والدہ بھرتی تھیں اب کرایہ  آتا ہے۔ 3۔ ایک اور فلیٹ والد صاحب کی حیات میں بک کروایا گیا اور ان  کے انتقال کے بعد مکمل ہوا تھا جوکہ ہماری اس بہن کو عارضی طور پہ رہنے کی غرض سے دیا گیا تھا وہ تقریباً8 سال تک اس میں رہائش پذیر تھی ،معمولی سی رقم کرائے کے عوض ان سے والدہ صاحبہ لیا کرتی  تھی ،بعد میں اسے فروخت کر کے ایک اور فلیٹ بک کروایا تھا والدہ صاحبہ نے۔ 4۔ پرانا  والا گھر فروخت کر کے نیا گھر خریدا اور اسی گھر میں ابھی رہائش پذیر ہیں، 2 پورشن رینٹ پر دیا ہے جس سے کرایہ وصول ہوتا ہے۔ 5۔ کراچی سے باہر کچھ اور زمین ہے جس کا ابھی تک کچھ خاص پتہ نہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد 2 بہنوں اور 1 بھائی کی شادی بھی ہوئی ان کی پڑھائی اور گزر بسر بھی ہوتا ہے۔ برائے مہربانی ترکہ میں راہ نمائی فرمائیں اور یہ بھی بتائیں کہ کیا رینٹ کی مد میں آئے ہوئے پیسوں پر بھی ساری بہنوں اور بھائی کا حصہ ہے۔ والدہ محترمہ الحمدللہ حیات ہیں اور بھائی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔

وضاحت: والد ہ والد کی حیات میں  گھر کے اخراجات وغیرہ سنبھالتی تھی ،والد صاحب ان کو پیسے دیتے تھے اور والدہ خرچ کرتی یہ فلیٹ بھی اس طرح خریدا گیا اور قسطیں بھری گئی۔

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی متروکہ  جائے داد  میں اس کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوتے ہیں، اور اگر ترکہ کی  جائے داد کرایہ پر دی ہوئی ہو اور  ورثاء نے باہمی رضامندی سے کرایہ پر اس کو باقی رکھا ہو تو اب اس کے کرایہ میں تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں والد مرحوم کی تمام جائے داد اور اس سے حاصل ہونے والا  کرایہ میں شرعاً تمام ورثاء کا  حق ہے جو ان کے درمیان شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگا ۔

تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق ِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ،اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے  نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ کو 9 حصے،بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے ۔

صورت تقسیم یہ ہے :

میت۔۔۔72/8

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
9147777777

فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو 12.50فیصد ،بیٹے کو 19.44فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 9.72 فیصد ملے گا ۔

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :

"(المادة 1073) تقسيم ‌حاصلات ‌الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم."

(الباب الاول فی بیان شرکۃ الملک،الفصل الثانی فی بیان کیفیۃ التصرف فی اعیان المشترکۃ،ص:206،نور محمد کارخانہ  تجارت کتب )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں