حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے’’معارف القرآن‘‘جلد:۲،صفحہ:۴۳۵پرسورۂ نساء،آیت نمبر:۵۲ کی تفسیر میں ’’اللہ تعالی کی لعنت کے مستحق کون لوگ ہیں؟‘‘کے عنوان کے تحت امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب "المدخل"کی ایک حدیث بحوالہ "مشكاة المصابيح" ذکر کی ہے،وہ حدیث یہ ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:چھ شخص ایسے ہیں جن پر میں نے لعنت بھیجی ہے اور اللہ تعالی نے بھی ان پر لعنت کی ہے۔۔۔الخ ۔اُن میں چھٹے نمبر پرجس شخص پر لعنت بھیجے جانے کاذکر ہے، وہ ’’ میری(یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ) سنت کو چھوڑنے والا‘‘ہے۔اس حدیث میں ’’سنت‘‘ سے کیا مراد ہے؟نیزیہ بھی بتائیں کہ یہ حدیث سنداور متن کے اعتبار سے ثابت ہے؟
۱۔سوال میں آپ نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے،یہ حدیث"سنن الترمذي"،"المعجم الكبير للطبراني"، "المستدرك على الصحيحين للحاكم"،"صحيح ابن حبان"،"مجمع الزوائد"،"مشكاة المصابيح"ودیگر کتبِ حدیث میں مذکورہے۔"المستدرك على الصحيحين للحاكم"کی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
"حدّثنا أبو محمّد بنُ عبد الله بنِ جعفرَ بنِ دَرسْتويْهِ الفارسيُّ، ثنا يعقوب بنُ سفيان الفارِسيُّ، وحدّثنا أبو بكر بنُ إسحاق الفقيه، ثنا الحسن بنُ عليِّ بنِ زيادٍ، قالا: ثنا إسحاق بنُ محمد الفرْويُّ، ثنا عبد الرحمن بنُ أبي الموال القُرشيُّ، وأخبرني محمد بنُ المؤمّل، ثنا الفضل بنُ محمد الشعرانيُّ، ثنا قُتيبة بنُ سعيدٍ، ثنا ابنُ أبي الموال عبد الرحمن، ثنا عبد الله بنُ موهب القُرشيُّ عن أبي بكر بنِ محمد بنِ عمرو بنِ حزمٍ عن عمرةَ عن عائشةَ-رضي الله عنها-، قالتْ: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: ستةٌ لعنتُهم، لعنَهم الله وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ: المكذِّبُ بقدر الله، والزائدُ في كتاب الله، والمتسلّطُ بالجبروت يُذِلّ مَن أعزّ الله ويُعزّ مَن أذلّ الله، والمستحِلُّ لحُرَم الله، والمستحِلُّ مِن عِترتي ما حرّم الله، والتاركُ لسُنَّتي. قد احتجَّ البخاريُّ بِعبد الرحمن بنِ أبي الموال، وهذا حديثٌ صحيحُ الإسناد، ولا أعرفُ له علّةً ولم يُخرِّجاه ".
(المستدرك على الصحيحين للحاكم، كتاب الإيمان، 1/91، رقم الحديث:102، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)
ترجمہ:
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چھ شخص ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتاہوں اور اللہ تعالی نے بھی ان کو ملعون قراردیا ہے۔اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔(پہلا)وہ شخص جو تقدیرِ الہی کوجھٹلانے والا ہے۔(دوسرا)وہ شخص جو کتاب اللہ میں اضافہ کرنے والا ہے(خواہ وہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں اضافہ کرے،یاقرآنِ کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء ِ الہی کے برعکس ہوں)۔(تیسرا)وہ شخص جو زبردستی غلبہ پانے کی بناپرایسے شخص کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالی نے عزت وعظمت دے رکھی ہواور ایسے شخص کو معزز بنائے جس کو اللہ تعالی نے ذلیل کررکھا ہو ۔(چوتھا) وہ شخص جو(حدود اللہ سے تجاوز کرکے) اُس چیز کو حلال جانے جسے اللہ تعالی نے حرام کررکھا ہو۔(پانچواں ) وہ شخص جو میری اولاد سے وہ چیز حلال جانے جو اللہ تعالی نے حرام کی ہے(یعنی میری اولاد کی عزت وتعظیم کرنا ضروری ہے اوران کو تکلیف پہنچاناحرام ہے،کوئی شخص ان کو تکلیف پہنچانے کو حلال سمجھے)۔(چھٹا)وہ شخص جو میری سنت کو چھوڑنےوالاہے۔(امام حاکم رحمہ اللہ حدیث کاحکم بیان کرتے ہوئےلکھتے ہیں):امام بخاری رحمہ اللہ نے (حدیث کے ایک راوی ) عبد الرحمن بن ابی الموال سے استدلال کیا ہے۔ اوریہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے ، مجھے اس میں کوئی علت(یعنی کوئی ایسا مخفی عیب جو حدیث کی صحت پراثر انداز ہو) معلوم نہیں ہوئی، امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ نے اس کو ذکر نہیں کیا‘‘۔
"مشكاة المصابيح"میں بھی یہی حدیث کچھ تقدیم وتاخیر اور الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مذکور ہے۔
(مشكاة المصابيح، كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، الفصل الثاني، 1/38، رقم الحديث:109، ط: المكتب الإسلامي-بيروت)
۲۔مولانا حسام الدین مبارک پوری رحمہ اللہ "مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"میں مذکورہ حدیث کی تشریح کے بعد اس حدیث کے دیگر مصادر اور ائمہ محدثین سے اس کاحکم نقل کرتے ہوئے لکھتےہیں:
"(رواه البيهقيُّ في المدخل) بِفتح الميم والخاء (ورزينٌ) أيْ ورواه رزينٌ (في كتابه) وأخرجه أيضاً النسائيُّ كما في الجامع الصغير، والطبرانيٌّ في الكبير، وابنُ حِبّان في صحيحه، والحاكمُ (ج1:ص36) وقال: صحيحُ الإسناد ولا أعرفُ له علّةً، انتهى. ووافقَه الذهبيُّ. وقال الهيثميُّ (ج7:ص205) : رجالُه ثقاتٌ. وقد صحّحه ابنُ حِبّان ....".
(مرعاة المفاتيح، كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، الفصل الثاني، 1/198، رقم الحديث:109، ط: إدارة البحوث العلمية)
ترجمہ:
’’(امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "المدخل"میں ،اوررزین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (تجريدالصحاح)میں اس حدیث کو روایت کیا ہے)، امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تخریج کی ہے،جیساکہ "الجامع الصغير"میں مذکور ہے،امام طبرانی رحمہ اللہ نے"المعجم الكبير"اورابنِ حبان رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح (صحيح ابن حبان) میں اس کی تخریج کی ہے،امام حاکم رحمہ اللہ نے(المستدرك) ج:۱، ص:۳۶پر اس کو روایت کرکے لکھا ہے:اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجھے اس میں کوئی علت(یعنی کوئی ایسا مخفی عیب جس سے حدیث کی صحت پراثرپڑے) نہیں معلوم ہوئی،انتہی۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی حدیث کے اس حکم کو بیان کرنے میں ان کی موافقت کی ہے۔حافظ (نورالدین) ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)میں ج:۷،ص:۲۰۵پر اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔نیز ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح قراردیا ہے‘‘۔
خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث ،سند کے اعتبار سے صحیح ہے ، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳۔مذکورہ حدیث کے الفاظ"التاركُ لسُنّتي"(میری سنت کو چھوڑنے والا) کی شارحینِ حدیث نے یہ تشریح بیان کی ہے:جوشخص سستی کی وجہ سے مستقل طورپر سنت کو چھوڑتا ہووہ گنا ہ گار ہے اور اس پر لعنت ، زجروتوبیخ (ڈانٹ ڈپٹ)کےطورپرہے،جوشخص سنت کو ناقابلِ اعتناسمجھ کر چھوڑتا ہووہ کافرہےاور اس پر لعنت حقیقۃً ہے،ہاں اگر کوئی شخص کبھی کسی وجہ سے کسی سنت کو چھوڑدےتو اس پرکوئی گناہ نہیں ہوگا،لیکن ایساکرنا بھی مناسب نہیں ہے۔یہاں پر لعنت سے مراد خیر اور رحمت سے دوری ہے،انسان جب کسی معصیت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خیر اوررحمت سے دورہوتا ہے،چاہےوہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔
باقی مذکورہ حدیث میں’’سنت‘‘سے مراد ’’سنت‘‘ کی کوئی مخصوص قسم سنتِ مؤکدہ وغیر مؤکدہ وغیرہ مرادہے، یا عمومی طور پر ہر’’سنت‘مراد ہے؟عام طور شارحینِ حدیث نے اس کی کوئی صراحت نہیں کی ،البتہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ وعید ،سنتِ مؤکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔
"مرقاة المفاتيح في شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:
"(والتاركُ لسُنّتي) أيْ: المعرِضُ عنها بالكليّة، أو بعضِها استخفافاً وقلّةَ مُبالاةٍِ كافرٌ وملعونٌ، وتاركها تهاوناً وتكاسلاً لا عن استخفافٍ عاصٍ، واللّعنةُ عليه مِن باب التغليظ".
(مرقاة المفاتيح، كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، 1/84، ط: دار الفكر-بيروت)
"فيض القدير شرح الجامع الصغير"میں ہے:
"(والتاركُ لسُنّتي) بأنْ أعرضَ عنها بالكُلّية أو تركَ بعضَها استخفافاً أو قلّة احتفالٍ بها، وأراد باللّعنة هُنا أحدُ قِسمَيها وهو الإبعادُ عن الخير والرّحمة، والإنسانُ ما دام في معصيةٍ بعيدٌ عنهما ولو مُسلماً".
(فيض القدير، حرف السين، 4/95، رقم الحديث:6992، ط: المكتبة التجارية الكبرى-مصر)
"لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح"میں ہے:
"وأما التاركُ للسُّنة استخفافًا وقلّةَ مُبالاةٍ فكافرٌ، وتاركُها تهاونًا وتكاسلًا لا عن استخفافٍ، عاصٍ إذا داومَ على ذلك، وأما تركُها أحيانًا فليستْ بِمعصيةٍ".
(لمعات التنقيح، كتاب الإيمان، باب الإيمان بالقدر، الفصل الثاني، 1/401، رقم الحديث:109، ط: دار النوادر)
’’مظاہرِ حق‘‘ میں ہے:
’’چھٹا ملعون اس شخص کو قراردیا گیا ہےجوسنتِ نبوی کو ترک کرتا ہو۔
اس کامسئلہ یہ ہے کہ جو شخص سستی اور کسل کی بناپرسنت کوترک کرتا ہووہ گناہ گار ہے،اور جوشخص سنت کو نعوذ باللہ ناقابلِ اعتناء سمجھ کرچھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے، لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔مگر یہ کہاجائے گا کہ جو شخص ازراہِ کسل وسستی سنت چھوڑتا ہےاس پر لعنت کرنازجروتوبیخ کے لیے ہے، اور جوشخص ناقابلِ اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہےاس پر حقیقۃً لعنت ہوگی، ہاں اکر کوئی شخص کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کردےتو اس پر گنا ہ نہیں ہوگا،لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنتِ مؤکدہ کے ترک کرنے پر ہے‘‘۔
(مظاہرِِ حق، کتاب الایمان،تقدیر پر ایمان لانے کابیان ،ج:۱،ص:۱۷۰، ط:دار الاشاعت کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144411101178
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن