بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ترک جمعہ کی حدیث میں ضرورت اور مرض سے کیا مراد ہے؟


سوال

"من ترك الجمعة من غير ضرورة و لا مرض كتب منافقًا في كتاب لايمحى و لايبدل" (”جو شخص بلا عذر جمعہ ترک کر دے تو اسے ایسی کتاب میں منافق لکھ دیا جاتا ہے، جو مٹائی جا سکتی ہے اور نہ (ہی) تبدیل کی جاسکتی ہے۔ “)اس حدیث میں ”ضرورة“ کے حکم میں کیا کچھ آتا ہے؟ اور مرض سے کتنی بیماری  مرادہے؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی باجماعت نماز کی ادائیگی  ہر عاقل بالغ، مقیم، آزاد، صحت مند مسلمان مرد پر لازم ہے، البتہ بسا اوقات عذر کے لاحق ہونے کے سبب جمعہ  کی نماز کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔

"ضرورۃ" سے مراد عذر ہے، لہذا اگر کسی مسلمان مرد  کو  کوئی بھی ایسا عذر لاحق ہوگیا جس کی وجہ  اس  مسلمان شخص کے لیے مسجد جانا ممکن نہ ر ہے، تو اس سے جمعہ کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔

چند اعذار درج ذیل ہیں:

الف: خوف: اگر کسی شخص کو اپنی  جان، مال، عزت کاخوف و خطرہ ہوکسی ظالم    یا دشمن وغیرہ سے۔

ب:سفر:اگر کوئی شخص حالت سفر (شرعی)میں ہو ۔

ج: موسمی حالات اورراستے کی مشکلات: شدید بارش وغیرہ کے سبب اگر راستہ خطرناک ہو یا اس میں کوئی رکاوٹ ہو، جیسے کہ پانی کا بہاؤ، کیچڑ وغیرہ کی وجہ سے   مسجد  جانا ممکن نہ ہو۔

د۔ ایسا مرض لاحق ہو جس کی وجہ سے مسجد جانا ممکن نہ ہو، (مریض والا حکم مریض کے تیماردار کا بھی ہے)مثلا: شدید بیمار، فالج کا مریض،شیخ فانی، اپاہج،اندھا، معذور وغیرہ۔

مرض سے مراد ایسا مرض اور بیماری ہے، جس بیماری میں مبتلا شخص  کےلیے  عام طور پر مسجد جانا ناممکن اور دشوار ہو، مثلاًفالج، جنون وغیرہ۔

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الجمعة حق واجب على كل مسلم في جماعة إلا على أربعة: عبد مملوك أو امرأة أو صبي أو مريض."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،باب وجوبها،الفصل الثانی،434/1، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:"جمعہ کی نماز ہر مسلمان پر جماعت کے ساتھ فرض ہے، سوائے چار افراد کے:غلام عورت، بچہ اوربیمار۔"

 

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ترك الجمعة ") ، أي: صلاتها (" من غير ضرورة ") : كالخوف من ظالم ونحوه كالمطر والثلج والوحل ونحوها. كذا في شرح المنية. (" كتب منافقا")"

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،باب وجوبها،1027/3، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"("أو مريض ") ، أي: مرضا يشق معه الحضور عادة."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،باب وجوبها،1026/3، ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

فتح باب العنایہ میں ہے:

"شرط لوجوب الجمعة الإقامة بمصر، والصحة، والحرية، والذكورة، والبلوغ، وسلامة العين، والرجل."

"(شرط لوجوب الجمعة) أي لفرضيتها (الإقامة بمصر والصحة) لأن في وجوبها على المسافر والمقيم بقرية والمريض حرجا. وفي «الظهيرية»: ولا جمعة على الشيخ الكبير الذي ضعف وعجز عن السعي كالمريض. (والحرية والذكورة) لأن العبد مشغول بالمولى، والمرأة بالزوج بخلاف باقي الصلوات المفروضة، فإنها تؤدى في زمان يسير. (والبلوغ) لأنه شرط لكل تكليف، وكذلك العقل. (وسلامة العين والرجل) فلا تجب على الأعمى سواء وجد قائدا يوصله إلى الجامع أو لا.

ولأبي حنيفة أنه عاجز بنفسه، فلا يعتبر قادرا بغيره ...... ولا تجب أيضا الجمعة على مفلوج الرجل ولا مقطوعها، ولا مقعد وإن وجد حاملا، لأنه عاجز عن أصل السعي."

(‌‌كتاب الصلاة،فصل في شروط وجوب الجمعة،400/1، ط:دار الأرقم بن أبي الأرقم - بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وشرط وجوبها: الإقامة والذكورة والصحة والحرية وسلامة العينين والرجلين) فلا تجب على مسافر، ولا على امرأة، ولا مريض، ولا عبد ولا أعمى، ولا مقعد؛ لأن المسافر يحرج في الحضور، وكذا المريض والأعمى والعبد مشغول بخدمة المولى والمرأة بخدمة الزوج فعذروا دفعا للحرج والضرر، .............. وأما الشيخ الكبير الذي ضعف فهو ملحق بالمريض فلا يجب عليه، وفي فتح القدير والمطر الشديد والاختفاء من السلطان الظالم مسقط فلو قال المصنف وشرط وجوبها الإقامة والذكورة والصحة والحرية ووجود البصر والقدرة على المشي وعدم الحبس والخوف والمطر الشديد لكان أشمل ........ ولا حاجة إلى ذكر سلامة العينين والرجلين لدخولهما تحت الصحة ........... ولا بمقعد ....... وألحق بالمريض الممرض، وفي السراج الوهاج الأصح أنه إن بقي المريض ضائعا بخروجه لم يجب عليه."

‌‌(كتاب الصلاة،شروط وجوب الجمعة،163/2، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں