ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے او ر ان کی میراث کی تقسیم کا فتوی تمام ورثا ء بتا کر ہم نے اسی دار الافتاء سے لے لیا ہے،اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے والد اور چچا کاروبار میں شریک تھے، والد کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ہم سب نے بڑے بھائی کو سربراہ بنایا اور چچا کے ساتھ آپس میں بیٹھ کر سب کی رضامندی سے کاروبار الگ کر لیا،اور سب ورثاء کی رضامندی سے بڑا بھائی اس کاروبار کی نگرانی کرنے لگا ۔ اب والد کے انتقال کو تقریبا 6سال ہو گئے ہیں۔ابھی تک میراث تقسیم نہیں ہوئی، اس دوران ہمارا بھائی ہمیں بطور خرچہ 25 ہزارروپےماہانہ دیتا تھا، ہمارے والد کی جا ئیداد تقریبا 6 کروڑ کی ہے،یہ جائیداد دکانوں اور باغات کی صورت میں ہے جس سے ماہانہ بہت سا نفع ہوتا ہے،اسی نفع سےدو دکانیں تعمیر کی گئی ہیں جن کی جگہ پہلےسےوالد صاحب کی تھی اور ایک دکان ابھی خریدی گئی ہے، اب جب ہم نے تقسیم کا مطالبہ کیا تو بڑابھائی اس کے بارے میں کہتا ہے کہ فلاں فلاں جائیداد میں نے اپنے پیسوں سے خریدی ہے،جب کہ اس کے اپنے پیسے اس کے پاس کچھ نہیں تھے صرف گزشتہ سال سے اس کی نوکری کی تنخواہ ملنا شروع ہوئی ہے،والد کے باغات میں پانی بھر آیا اس سے کچھ نقصان ہوا،اس کے متعلق کہتا ہے کہ یہ نقصان میں نےذاتی پیسوں سے پورا کیا ہے، جب میں تقسیم کروں گا توسب ورثاء سے لوں گا۔کاروبار میں کیا نفع ہوا ہمیں معلوم نہیں اور نہ ہی ہمیں ماہانہ پیسوں کے علاوہ کچھ دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ والد مرحوم کے کاروبار سے حاصل ہونے والا نفع جس سے دیگر جائیداد وغیرہ خریدی گئی ہےوہ صرف اسی بھائی کی ہو گی یا تمام ورثاء میں تقسیم ہو گی؟نیزبھائی کا یہ دعوی کرنا کہ اس نے فلاں فلاں جائیداد اپنے پیسوں سے خریدی ہے اس کی کیا شرعی حیثیت ہے اور کیا یہ دعوی مانا جائے گا؟
وضاحت :بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے سب دکانیں اور جائیداد وغیرہ اسی کے پاس تھے اور اسی کا قبضہ ہے۔اور کاروبار میں اپنی طرف سے اس نے کوئی اضافہ نہیں کیا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے بڑے بھائی نے تمام ورثاءکی رضامندی سےوالدمرحوم کا کاروبار سنبھالا اور اسی کی آمدن سے ہی مزید دکانیں تعمیر کی یا خریدی ہیں تو یہ سب والد مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا اور سب کچھ والد مرحوم کے تمام ورثاء میں میراث کے شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، باقی اس موروثی کاروبار میں اگر کوئی نقصان ہوا ہے تو وہ بھی تمام ورثاء پر تقسیم ہوگا یعنی ہر وارث کے حصے میں سے نقصان منہا کیا جائے گا۔
اورجن دکانوں کے متعلق آپ کا بھائی اپنی ذاتی رقم سے خریدنے کا دعوی کر رہا ہے، اگر وہ شرعی گواہوں (دو مرد وں یا ایک مرد اور دو عورتوں) کے ذریعے ثابت کردے کہ یہ دکانیں اس نے اپنے ذاتی پیسوں سے خریدی ہیں تواس صورت میں وہ دکانیں اسی کی ملکیت شمار ہوں گی اور دیگر ورثاء کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اور اگر بھائی شرعی گواہوں کے ذریعے اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے اور ورثاء سے قسم کا مطالبہ کرے تو ورثاءسے یوں قسم لی جائے گی کہ" اللہ کی قسم ہمیں معلوم نہیں کہ اس (بڑے بھائی )نے یہ دکانیں اپنے ذاتی پیسوں سے خریدی ہیں"۔ اگرورثاءیوں قسم کھا لیں تو بڑے بھائی کا دعوی مسترد ہوجائے گا اور یہ دکانیں والد مرحوم کے ترکہ شمار ہوکربڑے بھائی سمیت تمام ورثاء میں دیگر ترکہ کی طرح میراث کے شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم ہوں گی۔
بہتر ہو گا کہ کسی عالم دین مفتی صاحب کی نگرانی میں اضافہ شدہ جائیداد کا فیصلہ کرایا جائے۔
دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم."
(الکتاب العاشر الشرکات، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، المادة: 1073،ج:3، ص:26، ط دارالجیل)
وفیه أیضاً:
"والحكم الشرعي هو أنه متى ما أثبت المدعي استحقاقه بالمدعى به استحقه فعليه إذا ادعى مدع على آخر بحق له بحضور الحاكم، والمدعى عليه أنكر دعوى المدعي، فالحاكم بمقتضى المادة (1817) يطلب من المدعي بينة على دعواه ولا تطلب البينة من المدعى عليه مطلقا."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1، ص:74، ط دار الجيل)
البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:
"(قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث."
(کتاب الدعوی، ج:7، ص:217، ط دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102524
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن