بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی زمین میں روڈ مشترکہ رکھنے کے بعد ایک وارث کا دوسرے کو اس سے روکنے کا حکم


سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی پہلی اہلیہ کے انتقال کے بعد میری والدہ سے شادی کی تھی (میرے والد صاحب کے پہلی اہلیہ سے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، اور میری والدہ سے صرف دو بیٹے ہیں)  پھر میری والدہ بھی وفات پاگئیں،  اس کے کئی سالوں بعد میرے والد صاحب بھی انتقال کرگئے،ہمارے والد صاحب کی وفات کے بعد ہم چاروں بھائی اکٹھے رہے، کچھ عرصہ بعد بڑا بھائی(ہمارا سوتیلا بھائی) اپنی والدہ مرحومہ اور ہمارے مرحوم والد صاحب کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں سے اپنا حصہ لے کر الگ ہو گیا،  اس کے حصے میں منجھلے بھائی کے مکان کے سامنے والا پلاٹ آیا، پلاٹ تک جانے کے لیے منجھلے بھائی کے مکان کے نیچے(سامنے) سے روڈ کے لیے جگہ رکھی، اسی روڈ سے متصل بڑے بھائی کے پلاٹ سے پہلے ہم دونوں بھائیوں کے  لیے مکان بنانے کے لیے ایک پلاٹ دیا گیا(یعنی سب سے پہلے منجھلے بھائی کا گھرہے، پھر روڈ کے دوسری طرف ہم دونوں بھائیوں کا  پلاٹ ہے  اور آخر میں بڑے بھائی کا گھر ہے)  میں نے اس سال اپنے حصے کے پلاٹ پر مکان بنا کر ایک منزل مکمل کر لی،  مکان کا نقشہ بنانے میں منجھلے بھائی نے مدد کی (جس کے مکان کے نیچے سے روڈ رکھا) اور مکان میں آنے جانے کا مرکزی دروازہ  اسی مختص شدہ روڈ کی طرف رکھا اور مکان کی تعمیر کے دوران ضروری سامان لانے لے جانے اور مزدوروں کی آمدورفت  کے لیے بھی اسی روڈ کو استعمال کیا جاتا رہا، اب منجھلا بھائی جس کا نام  عبد اللہ ہے، اسی روڈ سے راستہ دینے سے انکاری ہے، باقی دونوں بھائی اور ایک بہن کو اس پر کوئی اعتراض نہیں، وہ اس روڈ کو مشترک سمجھتے ہیں، تقیسم کاروں کے بقول چوں کہ ہم باقی تینوں بھائی اس وقت الگ نہیں ہو رہے تھے، اس  لیے پلاٹوں کے لیے راستہ مختص کرتے وقت ہم دونوں بھائیوں کا نام نہیں لیا گیا، صرف بڑے بھائی کا نام لیا گیا تھا (کہ یہ روڈ بڑے بھائی کے گھر تک ہےجس کا گھر آخر میں واقع ہے)  کیوں کہ وہ ہم تینوں سے الگ ہورہا تھا، اور مذکورہ روڈ اس وجہ سے مشترک رکھا گیا اور   تقسیم نہیں کیاگیا تھا، تاکہ سب اس کو استعمال کرتے رہیں۔

درج بالا تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ میرے مکان میں جانے کے لیے اسی روڈ سے راستہ ملے گا یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کا بیان حقیقت پرمبنی ہے کہ ترکہ کی زمین پر ہر بھائی کو مکان کےلیے پلاٹ دیا گیا لیکن راستہ مشترکہ رکھا گیا تاکہ سب کے استعمال میں رہے، اور چوں کہ بڑا  بھائی تقسیم کے وقت الگ ہو رہا تھا اس لیےراستہ مختص کرتے وقت صرف اس کا نام   لیا گیا اور دوسرے بھائی چوں کہ اس وقت الگ نہیں ہو رہے تھے، اس لیے ان کا نام شامل نہیں کیاگیا، لیکن سب کے درمیان یہ طے ہوا کہ یہ راستہ مشترک رہے گا، جیسا کہ دیگر ورثاء کا بھی یہی کہنا ہے، توایسی صورت میں مذکورہ راستے  کو حسبِ سابق مشترکہ  رکھا جائے ، تا کہ سب بھائی آنے جانے اور سامان لانے لےجانے کےلیے اسےاستعمال کرتے رہیں، نیز  سائل کے بھائی (عبد الباری) کاسائل کومذکورہ سڑک سے آنے  جانے کےلیے راستہ نہ دینا اور سائل کوروکنا جائز نہیں ، سائل کواپنے گھر تک جانے اور سامان کی منتقلی کےلیے اس راستے کواستعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قسم ولأحدهم مسيل ماء أو طريق في ملك الآخر و) الحال أنه (لم يشترط في القسمة صرف عنه إن أمكن وإلا فسخت القسمة) إجماعًا و استؤنفت، و لو اختلفوا فقال بعضهم: أبقيناه مشتركًا كما كان إن أمكن إفراز كل فعل، كما بسطه الزيلعي. (اختلفوا في مقدار عرض الطريق جعل) عرضها (قدر عرض باب الدار) وأما في الأرض فبقدر ممر الثور."

وفی الرد:

"(قوله: و استؤنفت) أي على وجه يتمكن كل منهما من أن يجعل لنفسه طريقًا و مسيلًا لقطع الشركة. بقي ما إذا لم يمكن ذلك أصلًا و إن استؤنفت فكيف الحكم، و الظاهر أنها تستأنف أيضًا لشرط فيها فليراجع (قوله: أبقيناه) المناسب لما في الزيلعي نبقيه. و نصه: و لو اختلفوا في إدخال الطريق في القسمة بأن قال بعضهم: لايقسم الطريق بل يبقى مشتركًا كما كان قبل القسمة نظر فيه الحاكم، فإن كان يستقيم أن يفتح كل في نصيبه قسم الحاكم من غير طريق لجماعتهم تكميلًا للمنفعة و تحقيقًا للإفراز من كل وجه، و إن كان لايستقيم ذلك رفع طريقًا بين جماعتهم لتحقق تكميل المنفعة فيما وراء الطريق اهـ"

(كتاب القسمة،مطلب في الرجوع عن القرعة، ج:6، ص:263، ط،سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100997

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں