بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم اور ایک وارث کا دیگر ورثاء کی رضامندی سے متروکہ مکان خریدنا


سوال

1۔میری والدہ کا انتقال ہوا، بوقتِ وفات ان کے ورثاء میں شوہر، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، اس کے بعد شوہر یعنی ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، ورثاء میں تین بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑے، ترکہ میں ایک مکان ہے، اب اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

2۔نیز میں یہ مکان خریدنا چاہتاہوں، اور میرے بہن بھائی بھی اس پر راضی ہیں کہ یہ مکان میں خریدوں، تو اس صورت میں مذکورہ مکان کو کس قیمت کے اعتبار سے خریدوں؟ اور میں کس طرح اپنی بہن بھائیوں کو ان کا حصّہ دوں؟

3۔ ہماری ایک بہن کا انتقال والدین مرحومین کی حیات ہی میں ہوگیا تھا، اور ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں، کیا شرعًا مذکورہ مکان میں مرحومہ بہن اور اس کے بچوں کا حصّہ بنتا ہے یا نہیں؟

4۔ ہماری والدہ نے ترکہ میں زیور بھی چھوڑا، جس کی مالیت تقریبًا 22 لاکھ روپے ہے، اس کی شرعی تقسیم مذکورہ ورثاء کےدرمیان کس طرح ہوگی؟ اور اس پر زکوٰۃ کب سے لازم ہوگی؟ کیوں کہ ہماری والدہ کا انتقال 2018ء میں ہوا تھا، اور کیا اس زیور میں مرحومہ بہن اور ان کے بچوں کا شرعًا حصّہ ہوگا یا نہیں؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم والدین کے ترکہ کو ان کے ورثاء کے درمیان  تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دونوں مرحومین کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر ان مرحومین کے ذمّہ کوئی قرض ہو تو کل ترکہ سے اس کی ادائیگی کے بعد، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہوں تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 7 حصّوں  میں تقسیم کرکے 2، 2 حصّے مرحومین کے ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصّہ بیٹی کو ملے گا۔ صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:(والدین مرحومین)7

بیٹابیٹابیٹابیٹی
2221

 اور فیصد کے اعتبار سے %28.57 ہر ایک بیٹے کو اور %14.29 بیٹی کو ملے گا۔

2۔ سائل کا اپنے تمام بھائی بہن کی باہمی رضامندی سے قیمت مقرر کر کے مذکورہ مکان کو خریدنا درست ہے ۔

رہی بات سائل کا مذکورہ مکان خریدنے کی صورت میں وہ اپنے بھائی بہن کو ان کا حصّہ کس طرح دے گا؟ تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ مذکورہ مکان کی جو بھی قیمت باہمی رضامندی سے طے ہو، پھر مندرجہ بالا حصص اور تناسب کے اعتبار اسے تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے۔(جس میں سائل خود بھی شامل ہوگا)

3۔ واضح رہے کہ جب بیٹا یا بیٹی میں سے کسی ایک کا انتقال والدین کی زندگی میں ہوجائے، تو وہ والدین  کے وارث نہیں رہتے، اور جب والدین کی دیگر نرینہ اولاد موجود ہو  تو فوت شدہ بیٹا یا بیٹی کی اولاد کو بھی  اپنے دادا، دادی یا نانا نانی کی جائیداد میں سے شرعًا حصّہ نہیں ملتا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم والدین کی جس بیٹی کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہوچکا تھا ان کی اولاد کو مرحومین کی جائیداد میں سے کوئی حصّہ نہیں ملے گا، کیوں کہ ان کے دیگر بیٹے اور بیٹیاں بھی موجود ہیں اور ان کی موجودگی میں نواسے اور نواسیاں وارث نہیں ہوتے، لہٰذا شرعی طور پر انہیں نانا نانی کی ترکہ میں سےکوئی حصّہ نہیں ملے گا۔ البتہ تمام ورثاء باہمی رضامندی سے انہیں کچھ دے دیں تو باعث اجر ہے، بالکل محروم کرنا مناسب عمل نہیں۔

4۔ سائل کی والدہ کی مذکورہ ترکہ (زیور جس کی مالیت 22 لاکھ روپے ہے) بھی مندرجہ بالا حصص اور تناسب کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

نیز ترکہ کی تقسیم سے پہلے سائل پر اور نہ مرحومہ کے دیگر ورثاء پر اس کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، بلکہ بعد از تقسیم جس  جس وارث کے حصّے میں جتنی رقم آئے اگر وہ وارث پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو ایسی صورت میں دیگر اموال کے ساتھ ملاکر وہ اس کی زکوٰۃ ادا کرےگا۔ اور اگر کوئی وارث صاحبِ نصاب نہ ہو تو  اگر اس کے حصّے میں آنے والی  رقم  بقدرِ نصاب ہو اور تقسیم کے بعد اس وارث کے پاس اس مال پر مکمل سال بھی گزر جائے تب اس کی زکوٰۃ لازم ہوگی، لہذا تقسیم سے پہلے اس ترکہ پر جتنے سال گذرے ہیں ان سالوں کی زکوٰۃ واجب نہیں۔

اور جس بیٹی کا انتقال والدین کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا اسے اور اس کی اولاد کو شرعی طور پر ان زیورات میں سے بھی کوئی حصّہ نہیں ملےگا، تاہم اگر دیگر ورثاء اپنی مرضی سے مرحومہ بیٹی کی اولاد کو تبرعاً کچھ دینا چاہے تو دے سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن.

وفي الرد: فبيع كل منهما نصيبه شائعا جائز من الشريك والأجنبي."

(كتاب الشركة، ج:4، ص:300، ط:ايج ايم سعيد)

وفيه أيضاً:

"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقةً، أو حكمًا كمفقود، أو تقديرًا كجنين فيه غرة و وجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه سيأتي."

(كتاب الفرائض، شرائط الميراث، ج:6، ص:758، ط:ايج ايم سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وأما ‌الدين ‌الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث، أو بصنعه كما لوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع، والصلح عن القصاص، وبدل الكتابة ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض."

(كتاب الزكوة، فصل الشرائط اللتي ترجع إلى المال، ج:2، ص:10، ط:دار الكتب العلمية بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں