بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب وفات کے بعد جو مال چھوڑ گئے  ہیں ان میں ایک عدد چھ مرلہ مکان اور ایک عدد آٹھ مرلہ مکان شامل ہے ۔ میرے دادا نے اپنی زندگی میں (جب کہ والد محترم بھی حیات تھے)آٹھ مرلہ مکان میرے نام کر دیا تھا ،  جب دادا  کی وفات ہوئی تو میرے والد کی بہنیں اپنا حصہ مانگنے آئیں،  ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ میرے والد کی وفات ہوگئی،  اور مجھے وصیت کی کہ اپنی خالاؤں  کا حق ادا کر دینا، چھ مرلہ گھر پر میں نے اپنی کمائی سے 15 لاکھ خرچ کئے جس سے گھر قابل استعمال بنا اور پھر میں نے 50 لاکھ کے عوض بیچ دیا۔اب میں چاہتا ہوں کہ اپنی پھوپھیوں کا حق ادا کردوں لہذا رہنمائی فرمائیں کہ آیا آٹھ مرلہ مکان میں جو کہ میرے نام منسوب ہے ان کا حصہ نکلتا ہے؟  اور موجودہ حصے کس طرح ادا کیے جائیں گے؟ میرے دادا کی  اولاد میں ایک بیٹا (میرےوالد)اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ تفصیلی جواب عطا فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں کسی کے محض نام پر جائیداد کرنے سے ملکیت منتقل نہیں ہوتی جب تک کہ اس جائیداد کا مکمل  قبضہ اور دیگر اختیارات نہ دے دیے جائیں،  صورت مسئولہ  اگر سائل کے مرحوم دادا نے اپنی زندگی میں مذکورہ 8 مرلہ مکان قبضہ اور اختیارات کے ساتھ  سائل کو دے دیا تھا اور سائل نے اس پر قبضہ کر لیا تھا یہ مکان سائل کا ہے اور اس میں باقی ورثاء کا کوئی حق نہیں ہے، اور اگر سائل کے داد ا نے  مذکورہ مکان صرف سائل کے نام پر کر دیا تھا  اور باقی قبضہ اور دیگر اختیارات نہیں دئے تھے،  تو ایسی صورت میں یہ مکان مرحوم دادا کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا-

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے مرحوم دادا  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد  باقی  جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو5 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کے بیٹے کودو  حصے اور مرحوم کے ہر بیٹی کو  ایک ایک حصہ ملےگا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت :  5

بیٹابیٹیبیٹیبیٹی
2111

فیصد کے اعتبار سے40  فیصد مرحوم داد اکےفوت شدہ  بیٹے کا حصہ ہوگا جو ان کی اولاد میں تقسیم کی جائے گا   اور 20   20 فیصد مرحوم کے ہر ایک  بیٹی  کو ملے گا۔

جہاں تک چھے مرلہ مکان کا تعلق ہے تو یہ مکان اگر سائل کے والد مرحوم کی ذاتی ملکیت تھا، دادا کا نہیں تھا، تو یہ چھ مرلہ مکان سائل کے والد کے ورثاء میں ان کے حصص کے مطابق تقسیم ہوگا، تقسیم سے قبل سائل اس مکان کی تعمیر پر لگائے ہوئے اپنے پندرہ لاکھ روپے لینے کا حق رکھتا ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضًا حتى لايثبت الملك للموهوب له قبل القبض."

(کتاب الهبة، الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، 4/374،ط:دار الفکر)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره۔"

(کتاب الشرکة ،ج:2،ص:301،ط:رشیدیه)

درر الحكام میں ہے:

"(إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك بإذن الآخر وصرف من ماله قدرا معروفا فله الرجوع على شريكه بحصته أي أن يأخذ من شريكه مقدار ما أصاب حصته من المصرف)...إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها."

(كتاب العاشر الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة، الصل لأول في تعمير الأاموال المشتركة، المادة: 1309، 3/ 314، ط: دار الحيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں