بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تاریخ طبری سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سن 15 ہجری میں القدس کو فتح فرمانے کے بعد امیر المومنین اور عیسائیوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حوالہ


سوال

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سن 15 ہجری بمطابق سن 636 عیسوی میں القدس کو فتح فرمایا تو امیر المومنین اور عیسائیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، اس  معاہدے کی تحریر درج ذیل ہے:

یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے عمر رضی اللہ عنہ امیر المومنین نے ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جانوں ان کے اموال ان کے کلیساؤں ان کی صلیبوں اور ان کی ساری ملت کو دی گئی ہے۔ ان کے گرجا گھروں کو رہائش گاہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی انہیں گرایا جائے،  ان کے گرجا گھروں میں کمی نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے احاطے کو سکیڑا جائے ، ان کی صلیبوں میں کمی نہ کی جائے اور نہ ہی ان کے اموال میں کمی کی جائے،  ان کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے،  انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور نہ ان کے ساتھ زبردستی یہودیوں میں سے کسی کو ٹھہرایا جائے۔ اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر اللہ کا عہد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذمہ خلفاء کا ذمہ اور مومنین کا ذمہ ہے بشرطیکہ یہ لوگ جزیہ کی مقررہ مقدار ادا کرتے رہیں۔

اس تحریر پر گواہ خالد بن ولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم۔  اور یہ 15 ہجری میں لکھی گئی ہے۔

کیا یہ واقعہ امام طبری کی  تاریخ الامم والملوك  میں موجود ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ 

جواب

مذکورہ معاہدے کی عبارت ’’تاریخ طبری‘‘ میں  موجود ہے، ملاحظہ فرمائیے: 

"وعن خالد وعبادة، قالا: صالح عمر أهل إيلياء بالجابية، وكتب لهم فيها الصلح لكل كورة كتابا واحدا، ما خلا أهل إيلياء.بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان، أعطاهم أمانا لأنفسهم وأموالهم، ولكنائسهم وصلبانهم، وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، أنه لا تسكن كنائسهم ولا تهدم، ولا ينتقص منها ولا من حيزها، ولا من صليبهم، ولا من شيء من أموالهم، ولا يكرهون على دينهم، ولا يضار أحد منهم، ولا يسكن بإيلياء معهم أحد من اليهود، وعلى أهل إيلياء أن يعطوا الجزية كما يعطي أهل المدائن،وعليهم أن يخرجوا منها الروم واللصوت، فمن خرج منهم فإنه آمن على نفسه وماله حتى يبلغوا مأمنهم، ومن أقام منهم فهو آمن، وعليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن أحب من أهل إيلياء أن يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلي بيعهم وصلبهم فإنهم آمنون على أنفسهم وعلى بيعهم وصلبهم، حتى يبلغوا مأمنهم، ومن كان بها من أهل الأرض قبل مقتل فلان، فمن شاء منهم قعدوا عليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن شاء سار مع الروم، ومن شاء رجع إلى أهله فإنه لا يؤخذ منهم شيء حتى يحصد حصادهم، وعلى ما في هذا الكتاب عهد الله وذمة رسوله وذمة الخلفاء وذمة المؤمنين إذا أعطوا الذي عليهم من الجزية شهد على ذلك خالد بن الوليد، وعمرو بن العاص، وعبد الرحمن بن عوف، ومعاوية بن أبي سفيان وكتب وحضر سنة خمس عشرة."

(تاريخ الطبري، سنة خمس عشرة، ذكر فتح بيت المقدس، (3/ 608 و609)، ط/ دار التراث - بيروت، 1387هـ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502100091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں