بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر آنے کے ساتھ طلاق کو معلق کرنا


سوال

 کہ   ایک عورت اپنے شوہر سے کسی بات پر ناچاقی کی وجہ سے اپنے میکے چلی گئی، اور بلانے کے باوجود کافی عرصہ تک وہیں رہی اس کے شوہر نے پیغام بھیجا کہ اگر فلاں تاریخ کو رات بارہ بجے تک گھر نہ آئی تو تجھے ایک طلاق، وہ عورت گھر گئی مگر داخل نہیں ہوئی، اس کے سسر نے اسے داخل نہیں ہونے دیا اور کہا کہ پہلے اپنے بڑوں کو لے کر آؤ ،تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی؟ براہ کرم جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ "اگر فلاں تاریخ کو رات بارہ بجے تک گھر نہ آئی تو تجھے ایک طلاق  " تو اس سے مراد اگر شوہر کے گھر  تک آنا ہے،توبیوی  گھر آگئی مگر سسر نے نہیں چھوڑا،تو  شرط پائی جانے کی وجہ سے بیوی پر کوئی طلاق  واقع  نہیں ہوگی،دونوں کا نکاح بر قرار ہےگا،اوراگر گھر آنے سے  مراد گھر میں داخل ہونا ہے،توبیوی  کے آنے کے باوجود سسر نے گھر کے اندر داخل ہونے نہیں دیا،تو اس سے  بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی، تاہم شوہر اپنی بیوی سے عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) کے دوران رجوع کرسکتا ہے، رجوع کرنے کے بعد شوہر کو مزید دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا، اور اگر ان  کی بیوی کی عدت ختم ہوگئی ہے، تو اب دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے از سرِ نو شرعی گواہان (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجود گی میں، نئے مہر اور ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا، نکاح کے بعد شوہر کو مزید دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، ج:1، ص:415، ط: رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"الأصل أن الألفاظ المستعملة في الأيمان ‌مبنية ‌على ‌العرف عندنا كذا في الكافي.ولو حلف لا يدخل بيتا فدخل مسجدا أو بيعة أو كنيسة أو بيت نار أو دخل الكعبة أو حماما أو دهليزا أو ظلة باب دار لا يحنث وقيل: الجواب المذكور في مسألة الدهليز في دهليز يكون خارج باب الدار فإن كان داخل البيت ويمكن فيه البيتوتة يحنث والصحيح ما أطلق في الكتاب؛ لأن الدهليز لا يبات فيه عادة سواء كان خارج الباب أو داخله كذا في البدائع."

(كتاب الأيمان، الباب الثالث في اليمين على الدخول والسكنى وغيرهما، ج:2، ص:68، ط: رشیدیة)

 وفیہ ایضاً:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، ج:1، ص:420، ط: رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، ج:1، ص:415، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101915

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں